وہ عورتیں جن کا شکوہ اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر سنا! پڑھیئے ایک سبق آموز واقعہ

گلوب نیوز! ایک عورت اپنے ہاتھ میں لاٹھی لئے راستہ ڈھونڈ رہی تھی، اس نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو جو لوگوں کے درمیان کھڑے تھے، روکا اور ایک طرف لے گئیں۔ حضرت عمرؓ نے کافی دیر تک اس کی نحیف آواز کی طرف کان لگائے رکھے اور اس وقت تک انصراف نہیں کیاجب تک کہ اس کی ضرورت کو پورا نہیں فرما دیا۔

اس کے بعد جب حضرت عمرؓ ان لوگوں کی طرف واپس آئے تو کسی آدمی نے کہا ’’اے امیرالمومنین! آپ رضی اللہ عنہ نے اس بڑھیا کی خاطر قریش کے آدمیوں کو روکےرکھا؟ حضرت عمرؓرکھا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تیرا ناس ہو! جانتے بھی ہو کہ یہ بڑھیا کون تھی؟ اس آدمی نے کہا میں نہیں جانتا۔حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ وہ خاتون ہیں جن کا شکوہ اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر سنا، یہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ رات تک واپس نہ جاتیں تو میں بھی ان کی ضرورت پوری کرنے تک واپس نہ لوٹتا۔حضرت عمر فاروق ؓ کا ایک اور واقعہ درج ذیل ہے ۔ ایک رات حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے اور ان کی خبرگیری میں مصروف تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو تھکاوٹ محسوس ہوئی تو کسی گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ ایک عورت اپنی بیٹی سے کہہ رہی ہے کہ بیٹی! جاؤ اٹھو اور دودھ میں پانی ملا دو۔ بیٹی نے کہا اماں! کیا آپ کو معلوم نہیں کہامیرالمومنین حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا ہے۔ اس کی ماں نے کہا اے بیٹی! جاؤ بھی،بھی، دودھ میں پانی ملا دو، عمر رضی اللہ عنہ تو ہمیں نہیں دیکھ رہا ہے۔ اس لڑکی نے جواب دیا کہ اماں!اگر عمر رضی اللہ عنہ ہمیں نہیں دیکھ رہا تو عمر رضی اللہ عنہ کا رب تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس نیک لڑکی کی بات بہت پسند آئی،اپنے غلام ’’اسلم‘‘ کو جو اس وقت ان کے ہراہ تھے فرمایا اے اسلم! اس دروازہ کی شناخت رکھنا اور یہ جگہ بھی یاد رکھنا۔پھر وہ دونوں آگے چل دیئے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اسلم! وہاں جاؤ اور معلوم کرو کہ وہ کہنے والی لڑکی کون ہے اور اس نے کس عورت کو جواب دیا اور کیا ان کے ہاں کوئی مرد ہے؟اسلم معلومات لے کر واپس آیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس نے بتایا کہ وہ لڑکی کنواری، غیر شادی شدہ ہے اور وہ اس کی ماں ہے اور ان کے ہاں کوئی مرد نہیں ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بچوں کو بلایا اور ان کو حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ پھرفرمایا کیا تم میں سے کسی کو عورت کی حاجت ہے تو میں اس کی شادی کر دوں؟اور اگر تمہارے باپ میں عورتوں کے پاس جانے کی طاقت ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی اس لڑکی سے نکاح کرنے میں مجھ پر سبقت نہ لے جاتا۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری تو بیوی ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری بھی بیوی ہے۔حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابا جان! میری بیوی نہیں ہے آپ میری شادی کر دیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس لڑکی کو پیغام نکاح بھیجا اور (اپنے بیٹے) عاصم سے اس کی شادی کر دی۔ عاصم کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کی والدہ بنیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز بن مروان کے سب سے زیادہ عادل حکمران اور پانچویں خلیفہ راشد تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *