وہ وقت جب بادشاہ سے لوگوں کی عزت محفوظ نہیں تھی
طبرستان میں ایک ظالم بادشاہ تھا۔ شہر کی دو شیزہ لڑکیوں کی آبروریزی کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ ایک بڑھیا حضرت شیخ ابو سعید قصاب علیہ الرحمۃ کی خدمت میں گریہ وزاری کرتی ہوئی آئی اور فریاد کی کہ : حضور میری دستگیری فرمائیں بادشاہ نے مجھے کہلوایا ہے کہ آج وہ میری بیٹی کی عزت لوٹنے والا ہے ۔ یہ منحوس خبر سن کر آپ کی خدمت میں بھاگ آئی ہوں کہ شاید آپ کی دعا سے اس بلا کو ٹالا جاسکے شیخ ابوسعید قصابؒ نے ضعیفہ کی بات سن کر کچھ دیر کے لیے سر جھکائے رکھا۔
اس کے بعد سراٹھاکر فرمایا: بوڑھی ماں زندوں کے اندر تو ایساکوئی مستجاب الدعوات نہیں رہا تو فلاں قبرستان جا؛ وہاں تھجے ایسا ایسا شخص ملے گا۔ وہ تیری حاجت پوری کرے گا۔ ضعیفہ قبرستان میں پہنچی تو وہاں ایک شکیل ور عنا کے لباس سے خوشبوں کے فوارے ابل رہے تھے۔ ضعیفہ نے سلام کیا اور جواب کے بعد نوجوان نے ضعیفہ کے احوال پوچھے۔ اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ نوجوان نے ضعیفہ کی پوری بات غور سے سننے کے بعد اس سے کہا: تو پھر شیخ ابوسعید کی خدمت میں جا اور ان سے دعا کے لیے کہہ۔ ان کی دعا قبول ہوگی ضعیفہ نے جھنجھلا کر کہا: عجیب بات ہے زندہ مجھے مردوں کے پاس بھیجتا ہے اور مردہ مجھے پھر زندہ کے پاس لوٹاتا ہے اور میری حاجت روائی کوئی نہیں کرتا بھلا اب میں کہاں جاوں َ نوجوان نے پھر ضعیفہ سے کہا تو شیخ ابوسعید کی خدمت میں جا ان کی دعا سے تیرا مقصد پورا ہوگا ضعیفہ پھر شیخ ابوسعیدؒ کے پاس آئی اور سارا واقعہ عرض کیا شیخ ابوسعید نے سرجھکایا اور ان کا جسم پسینہ سے شرابور ہوگیا پر ایک چیخ ماری اور منہ کے بل گر پڑھے اسی لمحہ شہر میں شوروہنگامہ کی آواز بلند ہوئی لوگ کہ رہے
تھے بادشاہ فلاح ضعیفہ کی بیٹی کی آبروریزی کی نیت سے جارہاتھا راستہ میں اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گھوڑے سے گرا تو اس کی گردن ٹوٹ گئی اور فوراَ مرگیا۔ اس طرح شیخ کی دعا سے اہل شہر سے یہ بلا ٹل گئی بعد میں لوگوں نے شیخ سے دریافت کیا کہ آپ نے ضعیفہ کو قبرستان کیوں بھیجا اور پہلے ہی آپ نے دعا کیوں نہ فرمادی؟ شیخ نے کہا میں اس چیز کوناپسند کرتا ہوں کہ میری دعا سے وہ ہلاک ہو اس لئے میں نے بڑھیا کو خضر علیہ السلام کے پاس بھیجا انہوں نے اسے پھر میرے پاس بھیجا کہ ایسے پلید انسان کے لیے بد دعا کرنا جائز ہے
Leave a Reply