بیوی فجر کی نماز کیلئے نہیں اٹھاتی وہ

ایک دفعہ فجرکی نماز میں مسجد میں نمازی آنے کم ہو گئے، اس موقع پر مولوی صاحب نے سوچا کہ امت کس راستے پر چل پڑی ہے، مولوی صاحب نے ایک ترکیب سوچی اور صبح دس بجے مسجد میں اعلان کروا دیا، اعلان کچھ ایسے تھا ’’جس آدمی کو اس کی بیوی فجر کی نماز کے لیے نہیں اٹھاتی وہ آدمی دوسری شادی کر لے تمام اخراجات مسجد انتظامیہ اٹھائے گی‘‘۔ اس اعلان کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلی صبح مسجد میں جمعہ سے بھی زیادہ رش

بصرہ میں ايک انتہائی حسين وجميل عورت رہا کرتی تھی ۔لوگ اسے شعوانہ کے نام سے جانتے تھے ۔ظاہری حسن وجمال کے ساتھ ساتھ اس کی آواز بھی بہت خوبصورت تھی ۔اپنی خوبصورت آواز کی وجہ سے وہ گائيکی اور نوحہ گری میں مشہور تھی ۔ بصرہ شہر ميں خوشی اور غمی کی کوئی مجلس اس کے بغير ادھوری تصور کی جاتی تھی ۔يہی وجہ تھی کہ اس کے پاس بہت سا مال و دولت جمع ہو گيا تھا ۔بصرہ شہر ميں فسق وفجور کے حوالے سے اس کی مثال دیجاتی تھی ۔اس کا رہن سہن اميرانہ تھا ،وہ بيش قيمت لباس زيب تن کرتی اور گراں بہا زيورات سے بنی سنوری رہتی تھی۔

ايک دن وہ اپنی رومی اور ترکی کنيزوں کے ساتھ کہيں جا رہی تھی ۔راستے ميں اس کا گزر حضرت صالح المری علیہ الرحمۃکے گھر کے قریب سے ہو ا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کے برگزيدہ بندوں ميں سے تھے ۔آپ باعمل عالم دين اور عابد و زاہد تھے۔ آپ اپنے گھر ميں لوگوں کو وعظ ارشاد فرمايا کرتے تھے ۔آپ کے وعظ کی تاثير سے لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی اور وہ بڑی زورزور سے آہ و بکاء شروع کر ديتے اور اللہ عزوجل کے خوف سے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑياں لگ جاتيں ۔جب شعوانہ نامی وہ عورت وہاں سے گزرنے لگی تو اس نے گھر سے آہ وفغاں کی آوازيں سنيں۔ آوازيں سن کر اسے بہت غصہ آيا۔وہ اپنی کنيزوں سے کہنے لگی:”تعجب کی بات ہے کہ يہاں نوحہ کیا جا رہا ہے اور مجھے اس کی خبر تک نہيں دی گئی۔ ”پھر اس نے ايک خادمہ کو گھر کے حالات معلوم کرنے کے ليے اندر بھیج ديا۔ وہ لونڈی اندر گئی اور اندر کے حالات ديکھ کر اس پربھی خدا عزوجل کا خوف طاری ہو گيا اور وہ وہيں بيٹھ گئی۔ جب وہ واپس نہ آئی توشعوانہ نے کافی انتظار کے بعد دوسری اور پھر تيسری لونڈی کو اندر بھیجا مگر وہ بھی واپس نہ لوٹيں۔

پھر اس نے چوتھی خادمہ کو اندر بھیجا جو تھوڑی دير بعد واپس لوٹ آئی اور اس نے بتايا کہ گھر ميں کسی کے مرنے پر ماتم نہيں ہو رہا بلکہ اپنے گناہوں پر آہ وبکاء کی جارہی ہے، سمندر کی جھاگ سے بھی زيادہ ہيں۔”آپ نے فرمايا :”کوئی بات نہيں !اگر تيرے گناہ شعوانہ سے بھی زيادہ ہوں تو بھی اللہ عزوجل معاف فرمادے گا ۔”يہ سن کر وہ چيخ پڑی اور رونا شروع کر ديا اور اتنا روئی کہ اس پر بے ہوشی طاری ہو گئی ۔تھوڑی دير بعد جب اسے ہوش آيا تو کہنے لگی:”حضرت !ميں ہی وہ شعوانہ ہوں جس کے گناہوں کی مثاليں دی جاتی ہيں ۔”پھر اس نے اپنا قيمتی لباس اور گراں قدر زيوراتار کر پرانا سا لباس پہن ليا اور گناہوں سے کمايا ہوا سارا مال غرباء میں تقسیم کر ديا اوراپنے تمام غلام اور خادمائيں بھی آزاد کر ديں ۔ پھر اپنے گھر ميں مقيد ہو کر بيٹھ گئی ۔اس کے بعد وہ شب و روز اللہ عزول کی عبادت ميں مصروف رہتی اور اپنے گناہوں پر روتی رہتی اور ان کی معافی مانگتی رہتی۔ رو رو کر رب عزوجل کی بارگاہ ميں التجائيں کرتی :”اے توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھنے والے اور گنہگاروں کو معاف فرمانے والے !مجھ پر رحم فرما،ميں کمزور ہوں تيرے عذاب کی سختيوں کو برداشت نہيں کر سکتی ،تو مجھے اپنے عذاب سے بچا لے اور مجھے اپنی زيارت سے مشرف فرما۔” اس نے اسی حالت ميں چاليس سال زندگی بسر کی اورانتقال کر گئی ۔یہ ہے ولی کی صحبت کا اثر

(حکايات الصالحين ص74)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *