بادشاہ اور اس کا بیٹا
شیر شاہ سوری ہندوستا ن کا حکمران تھا۔ایک دن اس کا بیٹا ہاتھی پر سوار بازار میں سے گزرہا تھا کہ اس کی نظرایک کوٹھے پر پر پڑی جہاں ایک عورت غسل کر رہی تھی ۔شہزادے نے ہاتھی کو روکا ،شرارت سے اس عورت پر پھول پھینکا اور چل دیا۔شام کو جب اس عورت کا خاوند جو کہ ایک غریب لکڑہارا تھا گھر آیا تو بیوی کو مغموم اورمضطرب پایا۔دریافت کرنے پر اس نے شہزادے کا سارا ماجرا اپنے خاوند کو کہہ سنایا ۔لکڑہارے کا خون کھول اٹھا اگلی صبح بیوی کو ساتھ لیا اور شیر شاہ سوری کے دربار میں جا پہنچا ،شکایت کی اور انصا ف چاہا۔بادشاہ نے فریاد سنی ،شہزادے کو طلب کیا ،استعفار پر شہزادے نے ندامت سے سر جھکالیا ،گویا یہ جرم کا اعتراف تھا ۔شیر شاہ سوری نے حکم دیاکہ’’شہزادے کو دو سو کوڑے سو کوڑے دربار میں ہی اُس عورت کے سامنے مارے جائیں۔
‘‘یہ تھا عدل ،یہ تھا انصافلوگ غریب لیکنتین بادشاہ آپس میں بہت گہرے دوست تھے‘ ایک دفعہ تینوں اکٹھے ہوئے اور فیصلہ ہوا کہ دیکھتے ہیں کس کا ملک سب سے زیادہ خوبصورت ہے‘ ایک سال کا ٹائم مقرر ہو گیا کہ ایک سال خوب محنت کر لیں‘ ملک کو سنوار لیں‘ ایک سال کے بعد تینوں ممالک سے سمجھ دار اور لائق آدمی جج مقرر کئے جائیں گے وہ جو مل کر فیصلہ کریں اس کو تسلیم کیا جائے گا اور جیتنے والے بادشاہ کو انعام دیئے جائیں گے‘ ایک سال گزر گیا جج مقرر ہو گئے‘ انہوں نے مل کر ایک ریاست کا چکر لگایا‘ حیران رہ گئے ہر طرف خوبصورت عمارتیں تھیں‘ بڑے بڑے مکان تھے‘ عالی شان محلات تھے‘ یہ لوگ بہت حیران ہوئے کہ اس بادشاہ نے ایک سال میں پورے ملک کو اس طرح کیسے بنا دیا بہرحال دوسرے ملک گئے تو وہاں اس سے بھی زیادہ حیران ہوئے کہ پورا ملک ایک باغ کی طرح تھا‘ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی‘ پھولوں سے بھرے ہوئے پودے اور پھلوں سے بھرے ہوئے درخت تھے‘ یہ لوگ خوش بھی ہوئے ‘ متاثر بھی ہوئےلیکن ابھی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ تیسرے ملک کو دیکھنا ابھی باقی تھا‘ جب تیسرے ملک میں پہنچے تو وہاں کا بادشاہ انتہائی خوش اخلاق تھا‘ ان سے بڑے اچھے طریقے سے ملا‘ ان کی بہت خاطر مدارت کی اور پھر ان کو اپنے ملک کی سیر کی اجازت دے دی‘ یہ لوگ پورے ملک میں پھرے ‘ ان کو بڑے بڑے محلات اور بڑے مکان نظر نہیں آئے سوائے چند ایک کے جو پہلے ہی بنے ہوئے تھے‘ نہ ان کو کوئی خاص باغ نظر آئے اور نہ ہی ہریالی دکھائی دی‘ بس وہی کچھ تھا جو پہلے سے ہی چلا آ رہا تھا‘اب فیصلے کی گھڑی آ گئی تو تمام ججوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ یہ تیسرے نمبر والا بادشاہ جیت گیا‘ سب حیران ہوئے ‘ وجہ پوچھی گئی تو بتایا گیا کہ ہم پہلے ملک میں پہنچے تو ہر طرف خوبصورت عمارتیں‘ پکے مکان اور بڑے بڑے محلا تھے‘ یہ سب مچھا ہے لیکن ہم نے جب عوام کے چہروں پر نظر ڈالی۔
تو ہمیں بہت سے اداس چہرے نظر آئے جو خاموشی سے اپنی پریشانی اور مختلف مسائل بتا رہے تھے‘ ہم دوسرے ملک میں پہنچے تو یہ پورا ملک باغ بن چکا تھالیکن جب ہم نے لوگوں کے چہرے پڑھے تو پہلے سے بھی زیادہ لوگوں کو پریشان پایا‘ لوگ خاموش نظروں سے اپنے مسائل بتا رہے تھے جبکہ بادشاہ ملک کوباغ بنانے پر لگا ہوا تھا۔جب ہم تیسرے ملک میں پہنچے تو وہاں بڑے بڑے محلات‘ باغات اور پکے مکان تو نظرنہ آئے لیکن جب ہم نے لوگوں کے چہرے دیکھے تو وہ ہشاش بشاش تھے‘ ہر آدمی کا چہرہ کھلا ہوا تھا‘ ہر آدمی خوش تھا کسی کو کوئی پریشانی نہیں تھی‘ ہم نے جان بوجھ کر لوگوں سے پوچھا کہ آپ کو بادشاہ سے کوئی شکوہ شکایت ہےتو کسی ایک نے بھی کوئی شکایت نہیں کی‘ اس لئے یہ بادشاہ جیت گیا ہے ۔اگر ہم اس کہانی کو آج کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو آپ کو ہر جگہ ترقی کی باتیں سنائی دیں گی‘ بڑی عمارتیں اور سڑکیں بنانے کی باتیں کی جاتی ہیں‘ میٹروز بنائی جا رہی ہیں یہ اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری عوام کی بنیادی ضرورتیں‘ صحت‘ تعلیم اور انصاف ہیں‘ عوام تعلیم‘ صحت اور انصاف کےلئے رل رہے ہیں‘ غریبوں کے بچے جانوروں کے باڑوں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ‘ غربت کے ڈر سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں‘ جب تک عوام خوشحال نہیں ہوں گے اس وقت تک ایسی ترق کا کوئی فائدہ نہیں
Leave a Reply