فرعون کی بیوی ایمان کیسے لائی؟ اور اس پر کیا کیا مظالم ڈھائے گئے
فرعون مصرکا بادشاہ اور خدائی کا دعویٰ کرنے والا ایک منکر اور سرکش انسان تھا۔ اس کا اصل نام ولید تھا۔اس کا نام تاریخ کے ان ملعون اور بدبخت لوگوں میں سرفہرست ہے جنھوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی واحدنیت کا انکارکرتے ہوئے اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔اپنی اطاعت سے انکار کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے ، ان کا قتل عام کیا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب کو دعوت دیتے ہوئے رہتی دنیا کے لئے نشان عبرت بن گیا۔ دوستو !آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ فرعون کی بیوی یعنی حضرت آسیہ علیہ السلام کے ایمان لانے کاواقعہ کیسے پیش آیا ؟ لیکن ا س سے پہلے آپ سے گزارش ہے ہےکہ ہمارے اس چینل اردو کدہ کو سبسکرائب کر لیں تاکہ ایسی مزید ویڈیوز بھی آپ تک پہنچتی مزید رہیں۔ حضرت آسیہ علیہ السلام اپنے ایمان لانے سے پہلے بھی ایک نیک اور خدا ترس انسان تھیں۔ اور ایک سچے عقیدے اور حق کی روشنی کی تلاش میں تھیں شاید یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ وہ وقت کے جابر اور سرکش حاکم کی اہلیہ تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نےبنی اسرائیل کو کفر اور نافرمانیوں کا راستہ ترک کرکے ایک اللہ کی واحدنیت کا اعتراف کرنے اور اس کی عبادت کرنے کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔جب فرعون کو موسیٰ علیہ السلام
کے لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھانے کے معاملے کی خبر ہوئی تو اس نے لوگوں کو ایک بڑے میدان میں جمع کیا اور اپنے چند ماہر اور تجربہ کار ترین جادو گروں کو میدان میں اتارا تاکہ وہ اس کی طاقت کے کچھ ایسے مظاہر لوگوں کو دکھا سکیں جن کے سامنے موسیٰ علیہ السلام بے بس ہو جائیں اور لوگ ان کی تعلیمات کا اثر قبول نہ کریں اور انھیں (نعوذ با اللہ ) جھوٹا اورجنونی تصور کریں۔ جادوگروں نے کچھ رسیاں زمین پر پھینکیں جو جادو کے زور سے سانپ بن گئیں جو زمین پر پھن پھیلا کر چلنے لگے اور لوگوں میں خوف و دہشت پھیلانے لگے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں اپنا معجزاتی عصا زمین پر مارا جس کے زمین پر پڑتے ہی زمین سے ایک اژدھا نکل آیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ان سب سانپوں کو نگل گیا۔جادو گروں نے یہ منظر دیکھا تو فوراً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ پر ایمان لے آئے۔فرعون کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو وہ توبہ تائب ہوکر ایمان لانے کی بجائے مزید سرکشی اور غیض و غضب میں مبتلا ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے راستے پر
چلنے والوں پر زمین مزید تنگ کرنے لگا۔ادھر فرعون کی بیوی حضرت آسیہ علیہ السلام کو جب اس ایمان افروز واقعے کی خبر ہوئی تو انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کی حقانیت کو پا لیا اور فوری طور پر آپ ؑ پر ایمان لے آئیں۔لیکن انھیں معلوم تھا کہ حق اورایمان کے راستے پر چلنااس ملک کے کسی بھی کونے میں آسان نہیں تھا اور پھر وہ تو خود فرعون کے اپنے گھر میں مقیم تھیں۔ اس لیے انھوں نے اپنے خاوند سے اپنے ایمان لانے کا ذکر نہیں کیا۔ ایک روز یوں ہوا کہ فرعون کی بیٹی کی خادمہ اس کے بالوں میں کنگھی کررہی تھی۔ کہ یکا یک کنگھی اس کے ہاتھ سے زمین پر گر گئی۔ اور اس کے منہ سے نکلا۔ ” بسم اللہ ” اس پر فرعون کی بیٹی نے خادمہ سے پوچھا۔ کیا میرا باپ فرعون خدا نہیں ہے؟ خادمہ نے جواب دیا نہیں تیرا باپ خدا نہیں ہے۔ بلکہ خدا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے جو میرا ،تیرا ، تیرے باپ کا اور سب کا خد ا ہے۔ فرعون کی بیٹی نے پھر پوچھا کہ کیا یہ بات میں اپنے باپ کو بتائوں؟ خادمہ نے جواب دیا ہاں بتا دے۔ فرعون کو جب اس بات کا پتہ چلا تو اس نے خادمہ کو بلوا بھیجا ۔جب وہ ب عورت بادشاہ کے سامنے پیش ہوئی تو بادشاہ فرعون نے پوچھا ، بتا کیا میں خدا نہیں ہوں؟ اس پر خادمہ نے جواب دیا کہ نہیں خدا تو نہیں بلکہ میرا رب االلہ تعالیٰ ہے۔فرعون نے بار بار یہ سوال
دہرایا مگر خادمہ نے ہر بار یہی جواب دیا۔ فرعون ایک بار پھر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ ایک تانبے کا بڑا برتن لے کر آئو اور اس میں تیل ڈال کر اسے خوب گرم کرو ۔حتیٰ کہ وہ تیل کھولنا شروع ہو جائے اور اس عورت کے بیٹوں کو اس کے سامنے ایک ایک کر کے اس تیل میں ڈال دو تاکہ وہ جل کر بھسم ہو جائیں ۔حکم کی تعمیل ہوئی ۔جلد ہی بڑے برتن میں ڈالا گیا تیل آگ کی تپش کے باعث کھول رہا تھا ۔خادمہ کے بیٹوں کو ایک ایک کرکے کھولتے ہوئے تیل میں ڈالا جانے لگا۔ اس کے بیٹے اس کھولتے ہوئے تیل میں گرتے ہی جل کر راکھ ہوجاتے تھے۔ فرعون کے خادموں نے اس عورت کے سب بیٹوں کو اپنی ماں کی آنکھوں کے سامنے جلا ڈالا۔ ایک ماں جو اپنے بچوں کو معمولی سی تکلیف پہنچنا بھی برداشت نہیں کرتی ۔ اپنی آنکھوں کے سامنے انھیں جل کر راکھ ہوتا دیکھنا اس کےلئے کتنا تکلیف دہ ہوا ہو گا۔ اب خادموں نے اس عورت سے وہ آخری بچہ چھیننے کی کوشش کی جو شیر خوار تھا اور اس کی گود میں تھا۔اس پر اس کی ممتا تڑپ اٹھی۔ اور وہ چیختے چلاتے ہوئے فریاد کرنے لگی کہ تم نے میرے سب بیٹوں کو مار ڈالا۔
اس معصوم شیر خوار بچے کو تو اتنا بےدردی سے مت مارو۔ قریب تھا کہ وہ مظلوم خادمہ اپنے بچے کی جان بچانے کےلئے اپنے عقیدے سے پسپائی اختیار کر لیتی لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس شیر خوار بچے کو زبان عطا ہوئی اور اس نے یہ روح پرور الفاظ کہے “اے ماں ! غم نہ کر۔ اور انھیں آگ میں ڈال لینے دے ۔ بے شک دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے کہیں زیادہ ہے۔” اور یوں اللہ پر ایمان لانے کی سزا کے طورپر اس خادمہ کے سارے بیٹوں کو فرعون نے سفاکی سے اس کی آںکھوں قتل کروادیا۔ پھرفرعون نے اپنی بیوی حضرت آسیہ علیہ السلام کو اس واقعے کے بارے میں بتایا کہ کیسے اس نے کسی اور خدا کا دعویٰ کرنے والی خادمہ کے بیٹوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے زندہ جلایا۔ حضرت آسیہ علیہ السلام جو اب تک اپنی ایمان لانے کی بات اپنے خاوند سے چھپائے ہوئے تھیں۔ یہ بات سن کر کانپ اٹھیں اوربلند آواز میں کہا ” تجھے بربادی آجائے۔ وہ کون سی چیز ہے جس نے
تجھے اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی اور گمراہی کےلئے اکسا رکھا ہے۔ ” یہ الفاظ سن کر فرعون حیران رہ گیا۔ اور اس نے پوچھا کہ کیا تجھے بھی اس آدمی کی باتیں سننے کے بعد کسی جنون نے آن گھیرا ہے؟ اس پر حضرت آسیہ علیہ السلام نے جواب دیا۔ یہ جنون نہیں ہے۔ وہ آدمی اللہ کا نبی ہے اور اس آدمی کی باتیں برحق ہیں۔ اس ساری کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اپنی بیوی کے ایمان لانے کا انکشاف ہونے کے بعد فرعون پہلے تو انھیں لفظی حملوں اور طعن و تشنیع کی اذیت دیتا رہا۔ اور اپنے عقیدے سے باز آجانے کےلئے دبائو ڈالتا رہا ۔ اور پھر اس نے حضرت آسیہ علیہ السلام کی والدہ سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو منع کریں ۔ حضرت آسیہ ؑ کی والدہ نے بھی علیحدگی میں اپنی بیٹی سے بات کی اور انھیں فرعون کی بات مان لینے کو کہا لیکن آپ ؑ نے حق کا راستہ چھوڑنے سے صاف انکار کردیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد فرعون نے اپنی بیوی یعنی حضرت آسیہ علیہ السلام سے کہا کہ تیری بیٹی کو بھی تیری طرح میرے علاوہ کسی اور خدا کا جنون سوار ہو چکا ہے۔ بہتر ہے تو
باز آجا ورنہ مجھے کچھ تدبیر کرنا ہوگی۔ لیکن اللہ کی یہ نیک بندی اپنے فیصلے میں اٹل رہی اور اپنے عقیدے پر سختی سے کاربند رہی۔فرعون نے حضرت آسیہ علیہ السلام کو سمجھانے میں ناکامی پر انھیں جسمانی اذیت دینا شروع کر دی۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت آسیہ علیہ السلام کے ہاتھوں میں کیل گاڑ کر انھیں کھلے آسمان کی نیچے اس طرح لٹا دیا گیا کہ تپتے ہوئے سورج کی شعاعیں براہ راست ان کے چہرے پر پڑتی تھیں۔لیکن ان کا عقیدہ و ایمان غیر متزلزل رہا ۔ حضرت آسیہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ ” اے اللہ! مجھے فرعون کے ظلم سے نجات دلا ۔اور مجھے اپنے قریب کوئی گھر عطا کرے اور مجھے بخش دے” اپنے ہر حربےمیں ناکامی دیکھنے کے بعد فرعون نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ ایک بڑی چٹان کا بندو بست کریں۔ اور آسیہ سے آخری بار پوچھیں کیا وہ اپنا عقیدہ چھوڑنےکو تیار ہے۔ اگر وہ ہاں کہہ دے تووہ اسے عزت کے ساتھ واپس گھر چھوڑ دیں کہ وہ میری بیوی ہے۔اگر نہیں تو اس چٹان کے نیچے اس کچل ڈالیں۔ ایسا ہی کیا گیا۔حضرت آسیہ کو ایک بڑی چٹان کے قریب لاکر ان کے خدا کے بارے میں پوچھا گیا۔ حضرت آسیہ علیہ السلام نے نگاہیں اٹھا کرآسمان کی جانب دیکھا ۔ انھیں دور آسمان پر ایک موتی جگمگاتا ہوا دکھائی دیا۔ اور انھیں اطمینان مل گیا ۔انھوں نے ایک مرتبہ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کبریائی بیان کی ۔ اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی روح قبض کر لی گئی۔ اور خادموں نے ایک بے جان جسم پر ہی ایک بھاری بھرکم چٹان گرادی
Leave a Reply