شادی اور محبت میں کیا فرق ہے؟
ایک بار ایک لڑکا اپنی ایک ٹیچر کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ مس شادی اور پیار میں کیا فرق ہوتا ہے؟ وہ بولی کہ اس کا جواب میں تمہیں ایک تجربے کی روشنی میں سکھاؤں گی۔ ایک گندم کے کھیت میں جاؤ اور وہاں سے گندم کا ایک ایسا خوشہ توڑ کر لاؤ جو تمہیں سب سے بڑا اور شاندار لگے پر ایک شرط ہے کہ ایک بار آگے چلے گئے تو کھیت میں واپس جا کر کوئی پرانا گندم کا خوشہ نہیں توڑ سکتے،
مثال کے طور پر تم نے ایک بہت بڑا خوشہ دیکھا لیکن تمہیں لگے کہ ابھی اتنا کھیت باقی پڑا ہے اور تم اس کو چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہو اور آگے کوئی خوشہ اس جتنا بڑا نہیں ملتا تو اب تم واپس لوٹ کر اس والے کو نہیں لے سکتے۔وہ گیا اور بغل والے کھیت میں چھانٹی کرنے لگا، ابھی دیکھ ہی رہا تھا کہ چوتھائی کھیت میں چھانٹی کر کے اس کو بہت سے بڑ ے بڑے گندم کے خوشے نظر آئے لیکن اس نے ان میں سے کسی کو چننے کے بچائی سوچا کہ ابھی اتنا کھیت باقی پڑا ہے اس میں اس سے بھی بڑے مل جائیں گے، جب اس نے سارا کھیت دیکھ لیا تو آخر میں اس کو سمجھ آئی کہ بالکل شروع میں جو خوشے اس نے دیکھے تھے وہی سب سے بڑے بڑے تھے اور اب وہ واپس تو جا نہیں سکتا تھا، سو وہ اپنی میڈم کے پاس خالی ہاتھ واپس لوٹ آیا۔اس کی میڈم نے پوچھا کہ کدھر ہے سب سے بڑا گندم کا خوشہ، وہ بولا کہ میں آگے نکل گیا تھا اس امید میں کہ شاید کوئی اور بہتر والا مل جائے گا مگر جب تک سمجھ آیا ، میں آگے آگیا تھا اور واپس تو نہیں لوٹ سکتا تھا نا۔ اس کی میڈم نے بولا کہ بیٹے سمجھ جاؤ کہ یہ معاملہ ہی محبت میں ہوتا ہے، آپ جوان ہوتے ہو، کم سن اور پر جوش بہتر سے بہتر کی تلاش میں ایک عمر گزار دیتے ہو تو پتہ چلتا ہے کہ جو بیچ میں چھوڑ دیے تھے
پھر پہلے والی غلطی نہ کر بیٹھوں، تو وہ اسی کو لے آیا۔ میڈم نے بولا اب کی بار آپ خالی ہاتھ نہیں لوٹے؟ اس نے بولا، مجھے لگا کہ اس سے بڑی بھی ہوں گی مگر میرے لیے یہی بہتر تھی اور اگر آگے اس سے بھی چھوٹی ہوتیں تو میں واپس بھی تو نہیں لوٹ سکتا تھا نا۔ میڈم بولی: یہ ہے شادی کا معاملہ، جو آپ کو ایسی لگے کہ یہ مجھے مطمئن کر رہی ہے،
اس کا سب سے شاندار ہونا ضروری نہیں، اور یہ بات ہمیشہ آپکو آپ کی ماضی کی محبتوں کے تجربے سکھاتے ہیں۔ اب آپ سمجھے کہ محبت اور شادی میں کیا فرق ہوتا ہے۔تیسرا پارٹنرعبدالحامد خان کراچی پرل کانٹیننٹل میں ملازم تھے‘ تنخواہ اچھی تھی لیکن وہ مالدار نہیں تھے‘ تین بچے تھے‘ ایک بیٹا اور دوبیٹیاں۔ صاحبزادے کا نام سہیل خان تھا‘ سہیل خان نے 1984ءمیں بی کام کیا
اور یہ کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازم ہو گئے‘ یہ وہاں تین سال کام کرتے رہے‘ سہیل خان نے نوکری کے دوران اپنا بزنس شروع کرنے کا فیصلہ کیا‘ نوکری کو خیرباد کہا‘ پچاس ہزار روپے اکٹھے کئے‘نو سلائی مشینیں خریدیں اور یو اینڈ آئی کے نام سے گارمنٹس کا چھوٹا سا یونٹ لگا لیا‘ اللہ تعالیٰ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیااور یہ کامیاب ہونے لگے‘
یورپ اور امریکا کی گارمنٹس کمپنیاں اس وقت پاکستان سے ڈینم پینٹس بنواتی تھیں‘ سہیل خان نے ڈینم پینٹس بنانی شروع کر دیں اور یہ آہستہ آہستہ ملک کے بڑے ایکسپورٹرز میں بھی شمار ہونے لگے‘ سہیل خان نے 1990ءمیں والد عبدالحامد خان اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو بھی کاروبار میں شامل کر لیا‘یہ ترقی کے زینے چڑھتے چلے گئے‘ یہ 2000ءمیں تبلیغی جماعت میں شامل ہو گئے
اور یہ مولانا طارق جمیل کے ساتھ چلے بھی لگانے لگے‘ جنید جمشید بھی اس وقت تازہ تازہ مولانا کے حلقے میں شامل ہوئے تھے‘ وہ بھی چلے پر جاتے رہتے تھے‘ یہ دونوں تبلیغ کرنے کے اس دور میں ایک دوسرے کے دوست بن گئے‘ جنید جمشید نے اس زمانے میں اپنے نام سے گارمنٹس کا ایک برانڈ بنایا اور وہ برانڈ کُرتا کارنر کے حوالے کر دیا‘ جنید جمشید ملک کا بڑا نام تھے
لیکن ان کا برانڈ مار کھا گیا‘ وہ مارکیٹ میں جگہ نہ بنا سکا‘ جنید جمشید مذہب کی طرف راغب ہو رہے تھے‘ وہ موسیقی چھوڑ کر اپنی باقی زندگی اللہ کے نام وقف کرنا چاہتے تھے مگر وہ روزگار کے خدشات کا شکار تھے‘ وہ گانا گانے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے‘ وہ سمجھتے تھے” میں نے جس دن گانا چھوڑ دیا میں اس دن سڑک پر آ جاﺅں گا“ اور ان کا یہ خدشہ غلط بھی نہیں تھا‘
جنید جمشید نے 2002ءمیں شعیب منصور کے ساتھ مل کر پیپسی کےلئے نیا البم بنانا تھا‘ پیپسی کے ساتھ کروڑوں روپے کا کانٹریکٹ ہو چکا تھا‘ وہ مختلف فورمز پر گانا گانے کے پیسے بھی وصول کر چکے تھے مگر انہوں نے جوں ہی داڑھی بڑھائی اور گانا گانے سے انکار کیا‘ ان کے سارے کانٹریکٹ منسوخ ہو گئے اور وہ ایک ہی رات میں عرش سے فرش پر آ گئے‘
بچے مہنگے سکولوں میں پڑھتے تھے‘وہ بچوں کو سکول سے اٹھانے پر مجبور ہو گئے اور گھر کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو گیا‘ جنید جمشید کے بقول ”میرے پاس اس زمانے میں والدہ کی دواءکےلئے سو روپے بھی نہیں تھے“۔ان برے حالات میںسہیل خان ان کےلئے غیبی مدد ثابت ہوئے‘ جنید جمشید نے ایک دن مشورے کےلئے ان سے رابطہ کیا‘ لنچ پر ملاقات طے ہو گئی‘
جنید جمشید چھوٹی سی لیبل مشین لگانا چاہتے تھے‘ ان کی خواہش تھی وہ لیبل مشین لگائیں اور سہیل خان اپنے لیبلز کا ٹھیکہ انہیں دے دیں‘ سہیل خان نے بات سننے کے بعد جواب دیا ”جنید بھائی ہم تیس پیسے کے حساب سے لیبل خریدتے ہیں‘ یہ کام آپ کے شایان شان نہیں ہو گا‘ آپ کو دو تین ہزا روپے کے آرڈرز کےلئے لوگوں کے دفتروں کے چکر لگانا پڑیں گے‘
آپ اس کے بجائے کوئی بڑا کام کریں“ یہ بات جنید جمشید کے دل کو لگی‘ انہوں نے اپنے برانڈ پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا مگر ان کے پاس سرمایہ نہیں تھا چنانچہ انہوں نے سہیل خان کو پارٹنر شپ کی پیش کش کر دی‘ سہیل خان مان گیا اور یوں جنید جمشید نے گارمنٹس کا کام شروع کر دیا‘ سہیل خان نے طارق روڈ‘ گلشن اقبال اور حیدری میں تین دکانیں خریدیں ‘
اپنی فیکٹری کے اندر جنید جمشید کے نام کا ایک کارنر بنا یااور کام شروع کر دیا مگر برانڈ اس کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا‘ جنید جمشید مایوس ہو کر گانے کی طرف واپس چلے گئے‘ داڑھی بھی صاف کرا دی اور اپنے پرانے معاہدے بھی تازہ کر لئے‘ یہ تبدیلی سہیل خان اور جنید جمشید کے معاہدے میں رکاوٹ بن گئی‘ کام تقریباً بند ہو گیا لیکن جنید جمشید جلد ہی واپس آ گئے‘
کام دوبارہ شروع ہو گیا‘ سہیل خان نے یہ برانڈ اپنے بہنوئی محمود خان کی نگرانی میں دے دیا لیکن وہ بھی یہ کام نہ چلا سکے‘ برانڈ بری طرح پٹ گیا‘ جنید جمشید کا مالی بحران بڑھ گیا لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور جنید جمشید کا برانڈ تیزی سے ترقی کرنے لگا‘ کیسے؟ ہم اب اس طرف آتے ہیں۔سہیل خان اور جنید جمشید مشکل دور میں مشورے کےلئے مولانا تقی عثمانی کے پاس چلے گئے‘
مولانا نے دونوں کی بات سنی اور فرمایا ”میں تم دونوں کو کامیابی کا گُر بتا دیتا ہوں‘ آپ اس گُر کو پلے باندھ لو تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا“ یہ دونوں مولانا صاحب کی بات غور سے سننے لگے‘ مولانا نے فرمایا ”تم دو پارٹنر ہو‘ تم آج سے اللہ تعالیٰ کو اپنا تیسرا پارٹنر بنا لو‘ تم کامیاب ہو جاﺅ گے“ یہ بات دونوں کے دل کو لگی‘ یہ دونوں باہر نکلے اور ایک نیا کانٹریکٹ ڈیزائن کیا‘
جے ڈاٹ میں سہیل خان‘ جنید جمشید اور اللہ تعالیٰ تین پارٹنر ہو گئے اور یہ دونوں نہایت ایمانداری سے اپنے منافع کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کے اکاﺅنٹ میں جمع کرانے لگے‘ بس یہ اکاﺅنٹ کھلنے اور تیسرے پارٹنر کی شمولیت کی دیر تھی ملبوسات کے ناکام برانڈ کو پہیے لگ گئے‘ یہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے کامیاب ترین برانڈز میں شامل ہو گیا‘ یہ لوگ شروع میں اپنے منافع کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کو دیتے تھے
لیکن جب اللہ تعالیٰ کی پارٹنر شپ کا نتیجہ سامنے آنے لگا تو یہ لوگ اپنی سیل کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کے اکاﺅنٹ میں جمع کرانے لگے‘ یہ لوگ اپنے آﺅٹ لیٹس سے جو کماتے تھے یہ اس کا تیسرا حصہ چپ چاپ اللہ تعالیٰ کے نام وقف کر دیتے تھے‘ اس نئے ارینجمنٹ نے ان پر برکتوں کے مزید دروازے کھول دیئے‘ ان کی ترقی اور منافع دونوں کے پہیے تیز ہو گئے
اور یہ تمام ملکی برانڈز کو پیچھے چھوڑتے چلے گئے‘ جے ڈاٹ ملک کا سب سے بڑا برانڈ بن گیا‘ پاکستان میں اس وقت اس کے 65 آﺅٹ لیٹس ہیں‘ ملک سے باہر 8 بڑے شو روم ہیں جبکہ جے ڈاٹ نے عالمی سطح پر دس فرنچائز بھی دے رکھی ہیں۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ پارٹنر شپ نے جنید جمشید اور سہیل خان دونوں کی زندگی بدل دی‘ جنید جمشید اس کاروبار میں 25 فیصد کے شیئر ہولڈر تھے‘
یہ 25فیصد بھی بہت بڑی تھی‘ یہ رقم جنید جمشید کی ضرورت سے زیادہ تھی چنانچہ انہوں نے اس رقم کا بھی بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا‘ مساجد بنائیں‘ مدارس کو فنڈ کیا‘ بیواﺅں اور یتیموں کو سپورٹ کیا اور وہ طالب علموں کو وظیفے بھی دینے لگے‘ وہ جوں جوں اللہ تعالیٰ کی پارٹنر شپ میں اضافہ کرتے چلے گئے اللہ تعالیٰ ان پر اپنے کرم کے دروازے کھولتا چلا گیا
یہاں تک کہ مولوی جنید جمشید راک سٹار جنید جمشید سے زیادہ مقبول ہو گیا‘ وہ گانا گاتے تھے تو وہ مشہور تھے‘ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے پر چل پڑے تو وہ باعزت شخصیت بن گئے‘ وہ گلوکار تھے تو لوگ ان سے آٹو گراف لیتے تھے‘ وہ مولوی بنے تو لوگ ان کے ہاتھ چومنے لگے اور وہ سٹار تھے تو وہ پیسے کے پیچھے بھاگتے تھے‘ وہ اللہ والے ہوئے تو پیسہ ان کے تعاقب میں دوڑ پڑا‘
سہیل خان کی دنیا بھی بدل گئی‘ یہ اللہ تعالیٰ کو پارٹنر بنا کر مٹی کے جس ڈھیر کو ہاتھ لگاتے ہیں وہ سونا بن جاتا ہے اور یہ جس پراجیکٹ میں اللہ تعالیٰ کو شامل نہیں کرتے وہ منصوبہ کثیر سرمایہ کاری اور ماہر ترین ٹیم کے باوجود بیٹھ جاتا ہے‘ یہ تجربہ حیران کن تھا چنانچہ سہیل خان نے اپنے ہر کاروبار میں اللہ تعالیٰ کو پارٹنر بنا لیا‘ اللہ تعالیٰ ان کے بعض بزنس میں دوسرا پارٹنر ہے
اور بعض میں تیسرا چنانچہ ان کے تمام کاروبار دن رات دوڑ رہے ہیں‘ پارٹنر شپ کا یہ فارمولہ سہیل خان کی زندگی کا اتنا بڑا حصہ ہے کہ انہوں نے گھر میں چندے کا ایک باکس رکھا ہوا ہے‘ خاندان کا جو بھی فرد گھر سے باہر جاتا ہے وہ اس باکس میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتا ہے اور یہ باکس بعد ازاں ضرورت مندوں کی جھولی میں خالی کر دیا جاتا ہے‘ یہ باکس اب سہیل خان کے خاندان کا حصہ بن چکا ہے
۔مجھے جنید جمشید کی مقبولیت کے پیچھے ان کی قربانی دکھائی دی اور خوشحالی کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی پارٹنر شپ‘ جنید جمشید نے اللہ تعالیٰ کےلئے شہرت کو ٹھوکر ماری تھی‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت دونوں میں عزت سے نواز دیا اور جنید جمشید نے اپنے کاروبار میں اللہ تعالیٰ کو پارٹنر بنا لیا تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں مال و دولت سے رنگ دیا‘ یہ ملک کے خوشحال ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے‘
کاش جنید جمشید کی زندگی اور موت ہماری آنکھیں کھول دے‘ کاش ہم جنید جمشید کی طرح اللہ تعالیٰ کےلئے شہرت بھی قربان کر دیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنا پارٹنر بھی بنا لیں اور اللہ تعالیٰ جواب میں ہماری زندگیاں بھی بدل دے‘ مجھے یقین ہے ہم نے جس دن یہ کیا‘ ہم اس دن خوشحال بھی ہو جائیں گے اور باعزت بھی‘ کیوں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کبھی یہ گوارہ نہیں کرتی دنیا کا کوئی شخص اس کے نام پر شہرت قربان کرے
اور یہ اسے بدلے میں عزت نہ دے اور کوئی شخص اسے اپنا بزنس پارٹنر بنائے اور اسے اس کے بعد کاروبار میں نقصان ہو جائے‘ بے شک اللہ تعالیٰ کائنات کا سب سے بڑا غیرت مند پارٹنر ہے‘ یہ اپنے پارٹنر کو کبھی نقصان نہیں ہونے دیتا۔
زیروپوائنٹ/ جاوید چودھری
Leave a Reply