یہ ایک فطری بات ہے کہ آدمی آپ کا جسم چاہتا ہے۔

معافی ،شکریہ اور اظہار محبت ان تین چیزوں کی خون کے رشتوں میں کبھی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف رویہ درست کرنا ہوتا ہے اور سب ٹھیک ہوجاتاہے۔ عورت کی ایک ادا مرد کی تمام عقل پر بھاری ہے ۔ فاصلہ دیو ہوتا ہے سارے تعلق کھا جاتاہے۔ محبت دو بیوقوفوں کے درمیان ایک معاہدہ کا نام ہے دونوں میں سے جسے عقل پہلے آجائے ، وہ بے وفا کہلاتا ہے۔ بد زبان مرد اور بے لگام عورت دونوں ہی سماج کی بدنما صورت ہیں۔ محبت عورت کی ایجاد اور مرد کی دریافت ہے ۔

یہ وہ بیماری ہے جس میں مرد اور عورت کی بینائی کم ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ اندھے بھی ہوجاتے ہیں ۔ وقت بڑی ظالم چیز ہے یہ کلائیوں سے چوڑیاں لے جاتا ہے اور جھریاں دے جاتاہے۔ محبت میں نہ “زیادہ” کی گنجائش ہوتی ہے نہ ہی “کم “کی۔ جس دم تم اس کے درجے مقرر کرنے اور اس کا ناپ تول کرنے کی کوشش کرو گے ۔ وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور پیچھے چھوڑ جائے گی اپنی کڑوی یادیں۔ چہرے کتنے عجیب ہوتے ہیں راز ہوتے ہیں جب انہیں پڑھنے لگیں تو یوں لگتا ہے

جیسے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ۔ دوسر ی دفعہ نظر ڈالیں تو دوبارہ شروع سے پڑھنا پڑتا ہے ۔ یو ں جیسے کتا ب کاورق الٹ گیا ہو۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ۔ جن کی خواہشات کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی وہ ہر انسانی خوبی اور صفت سے خود کو محروم کرلیتے ہیں ۔ دریا کے کنارے بیٹھ کر بھی ان کو پانی نظر نہیں آتا۔ آپ اپنے ذہن سے نکال دیں کہ آج کل کے مرد کو آپ کا جسم نہیں چاہیے کوئی آپ کے ساتھ جتنا بھی مخلص ہیں پر اس بات کو کبھی نابھولے کہ یہ فطرتی چیز ہے مرد میں اور آپ کا واسطہ آج کل کے مرد سے پڑا ہے ۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے۔

سوچے اس قابل نہیں ہے کہ ان سے یہ جانا جاسکے کہ واقعی میں مخلص ہیں لوگ ہاں جس کے دل میں ایمان کا ذرہ باقی ہے وہ ہمیشہ حلال کا راستہ ہی اپنائے گا پر میں صرف یہ چاہوں گا کہ ہرانسان خود کو محفوظ کرنے کا خود حقدار ہے۔ خود کو محفوظ رکھے خدا نے آپ کو عقل دی ہے آج کل کے لوگوں کا ذہن فح اشی سے بھرے ہے اور یہ کس سے بات کرنے سے ظاہر نہیں ہوگی کیونکہ ہر کسی کے پاس اب الفاظ ہیں جن کو کردار کی ڈھال بنا کے استعمال کیا جاتاہے۔

عورت کو ہر طرح کی بدنامی سے بچنے کے لیے ایک گھر کی ضرورت ہوتی ہے ، اور مرد کو دن رات غلامی کرنے والی نوکر کی، اسے عورت سے بڑھ کر کوئی اچھا نوکر نہیں مل سکتا ، اس لیے روٹی ، کپڑا منظور کرکے ، مرد یہ سودا منظور کرلیتا ہے۔ اور اسے ہمارے شہر میں بیاہ کے نام سے یا دکیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *