کپڑے ٹھیک کر لو میری جان میں جارہا ہوں کل ملتے ہیں ۔
کپڑے ٹھیک کر لو میری جان میں جا رہا ہوں , کل ملتے ہیں ۔ گھر سے نکلنے کی جتنی جلدی اسے ہوتی تھی شاید ہی کسی کو ہوتی ہو گی ۔ صبح اپنی بیوی سے بھی پہلے اٹھ کر تیار ہو جاتا تھا ۔ ایسا نہیں تھا کہ نئی نئی نوکری تھی ۔ اور ایسا بھی نہیں تھا کہ آفس جلدی پہنچنا ضروری تھا ۔ آدھا ناشتہ ہاتھ میں اور آدھا منہ میں , بیوی پیچھے
پیچھے بیگ پکڑاتی ہانپتی کانپتی کہ آفس پہنچنے میں دیر نہ ہو جاۓ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سب آفس کے لئے نہیں تھا ۔ ناشتہ ٹھیک سے کیے بغیر گاڑی طوفان کی طرح اڑاتے ہوۓ اسے آفس نہیں بلکہ آفس سے پہلے اپنی منہ بولی بیوی کے پاس جانا ہوتا تھا ۔ ہاں وہ ناجائز رشتہ جو پچھلے ایک سال سے کامیابی سے چل رہا تھا ۔ پہلے جان
پہچان , دوستی اور اب گناہ کی محبت ۔ سلیم نے اپنی بیوی اور ریما کے شوہر سے چپ کے یہ تعلق بنا رکھا تھا ۔ اور یہ رشتہ اپنی ساری حدیں پار کر چکا تھا ۔ ریما کا صبح میج آتے ہی یہ گھر سے نکل جاتا تھا ۔ وہ چلا گیا ہے آجاؤ اور یہ اڑ کر وہاں پہنچ جاتا تھا ۔ ریما اسے سجی سنوری اور خوشبو سے نہائی ہوئی ملتی تھی اور یہ سلیم کی خواہش تھی کہ
میں جب بھی آؤں , تو تم مجھے ہمیشہ تیار نئی نویلی دلہن کی طرح ملا کرو ۔ اسے اپنی بیوی کی طرح اجڑی عور تیں پسند نہیں تھیں ۔ اس لیے ریما اسے دلہن بن کر ملتی تھی ۔ صبح سویرے ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ۔ ریما کا شوہر ایک شریف انسان تھا ۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ اس کی ناک کے نیچے یہ لوگ روزانہ ملتے تھے اور اس کی
بیوی بھی اکھڑی اکھڑی رہتی تھی ۔ اسے نہ کوئی شک تھا اور نہ ہی کوئی فکر اس لیے یہ دونوں اپنے حرام رشتے میں آگے بڑھتے چلے کئے ۔ یہ ملاقاتیں پہلے ہفتے میں ایک بار اور پھر روزانہ ہونے لگیں ۔ اپنی بیوی کو آفس کا کہہ کر یہ ریما سے ملنے چلا آتا تھا ۔ اور دو گھنٹے گناہ کے بستر پر گزار کر یہ اپنے آفس چلا جاتا تھا ۔ سلسلہ یونہی چلتا رہتا اگر
ایک دن وہ طبیعت خرابی کی وجہ سے پلٹ کر نا آتا ۔ ریما کے گھر سے نکل کر آفس جاتے ہوۓ اسے سر میں شدید در د اٹھا اور اس نے آفس جانا کینسل کیا ۔ اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا ۔ اس نے دروازے پر دستک دی تو دروازہ کھلا ہوا ملا دروازہ کھلا ہے ! کیوں ? وہ حیران پریشان اندر آیا تو بیوی اسے کہیں نظر نہ آئی ۔ اندر سے کچھ آواز آئی تو وہ بیڈ روم کی طرف جانے لگا اتنے میں اس
کی بیوی اندر سے بولتی ہوئی باہر آئی , آ جاؤ کب سے دروازہ کھلا مچوڑا ہے اور سلیم کو دیکھ کر کھٹھک گئی دوسری طرف سلیم نے اس کا جملہ سنا ہی نہیں تھا وہ تو ایک نظر اپنی ہر وقت اجڑی رہنے والی بیوی کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ جو ہمیشہ اجڑے لباس اور بکھرے بالوں کے ساتھ آدم بیزار صورت لیے رہتی تھی اس وقت ایک دلہن کا لباس پہنے خوشبو میں بسی ہوئی اس کے سامنے کھڑی تھی ۔
Leave a Reply