عورت کی کمزوری کیا ہے…

کی کمزوری تو ثابت ہے کہ اب تک کی تاریخ میں وہ مرد سے ہارتی ہی چلی آ رہی ہے۔ مرد نے اپنے لحاظ سے اینے لحاظ سے ایک مردوادی تاریخ لکھ دی اور عورت کچھ نہ کر سکی۔ مرد نے اسے قابو میں کر لیا اور عورت قابو میں آتی رہی۔ مرد نے عورت کو ایکسپلائٹ کیا اور عورت ایکسپلائٹ ہوتی رہی۔ مرد نے عورت کو پیٹا اور عورت پٹتی رہی۔ پھر مان لینا چاہیے کہ مرد مضبوط اور عورت کمزور ہے۔

لیکن پھر الٹا ہونا شروع ہو گیا۔ عورت نے مرد کی چال سمجھ لی اور اس سے بغاوت کر دی۔ لیکن کیا اس بغاوت میں اسے وہ سکون مل رہا ہے جس کے لیے اس نے بغاوت کی تھی؟ بغاوت کرنے کے بعد بھی تو وہ مرد ہی کی محتاج ہے۔ مرد ہی سے اس کی جنسی خواہش پوری ہوگی۔ کب تک ’’عورت کے لیے عورت‘‘ کا لیسبین فارمولا کام میں لایا جاتا رہے گا؟ کب تک عورت مرد کی دست برد سے محفوظ رہے گی؟

ظاہر ہے کہ عورت کو مرد کی ضرورت ہے۔ اور مرد کو عورت کی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ لیکن حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے ہیں کہ اب مرد کو عورت سے کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ اسے اس حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا کہ اب عورت عقلمند ہو گئی ہے۔ وہ بے وقوف نہیں رہی کہ پہلے کی طرح گھر میں چکی پیسے گی اور تکیے پر پھول بنائے گی۔ اب عورت کو عقل آ گئی ہے۔ اب وہ گھر میں غلامی نہیں کرے گی۔ وہ آفس میں جاب کرےگی۔ اور وہاں عشق بھی لڑائے گی۔ اور اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہ کتنے مردوں سے جنسی تعلق بناتی ہے۔ فرق اس لیے نہیں پڑے گا کہ اس کا شوہر بھی تو کتنی ہی عورتوں سے جنسی تعلق بناتا ہے۔ اس لیے یہ اب تاریخ کا وہ دور ہے جس میں عورت مرد کو تیر کی طرح سیدھا کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ وہ مردنام کے جانور کو سدھا لے گی۔ اور قابو میں کر لے گی۔

لیکن پھر بھی نہیں لگتا کہ وہ مرد کو قابو میں کر سکے گی۔ کیونکہ مرد بڑے چالاک ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ کئی کئی عورتوں سے جسمانی تعلق رکھ سکتے ہیں بغیر شادی کیے۔ اور عورت کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ فیمی نسٹ مفکرین کہہ سکتے ہیں پھر عورت بھی یہی کرے گی، ایک ساتھ کئی کئی مردوں سے جنسی تعلق بنائے گی اور مرد کو پتا بھی نہیں چلنے دے گی۔

اس انتقام کے چکر میں عورت مرد کو سیدھا کرسکے یا نہ کر سکے، خاندانی نظام ضرور تباہ ہو جائے گا۔ کیونکہ عورت نے مرد سے ہزاروں سالوں کا انتقام لینے کی ٹھان لی ہے۔ اور مردوں کی ظلم کی چکی کے تلے پسنے والی عورت کا سیلف ریسپکٹ زخمی ہو چکا ہے۔ اور وہ کسی گھائل شیرنی کی طرح خاندانی نظام کے ہر اس ستون پر اور ہر اس بنیاد پر ضرب لگائے گی جس سے اس کے سیلف ریسپکٹ کے واپس ملنے کا امکان ہوگا۔

خاندانی نظام کے تباہ ہونے سے سیلف ریسپکٹ واپس کیسے ملے گا؟ وہ اس طرح کہ مرد کو بچے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بچے کے لیے تڑپے گا لیکن عورت حمل ٹھہرانے کو راضی نہ ہوگی۔ کیونکہ اگر ایک بار عورت کو حمل ٹھہر گیا تو پھر وہ مرد کی غلام بن جاتی ہے، اور اگر غلام نہیں بنتی تو اسے بچے کو اکیلے ڈھونا پڑے گا۔ اکیلے پالنا پڑتا ہے۔ اکیلے اسے پیٹھ پر اٹھائے اٹھائے محنت مزدوری کرنی پڑے گی۔ اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ وہ حمل ہی نہ ٹھہرائے اور بچے کی اپنی خواہش کو فنا کردے۔ اور دنیا کی ترقی کی دوڑ میں شامل ہو جائے۔ ایکٹریس بنے، ایر ہوسٹیس بنے، وزیر اعظم بنے، فوجی جرنل بنے، پروفیسر بنے، اور وہ سب کچھ بنے جو مرد بنتے آئے ہیں۔ وہ گھریلو دایہ نہ بنے۔ آج ایسی عورتیں بہت ہیں جو اس مردوادی نظام کے جبر تلے رہنا پسند نہیں کرتی ہیں۔ وہ غلامی کی زندگی جینے سے اچھا یہ سمجھتی ہے کہ بغیر شادی کیے ساری زندگی گزار دے۔ ساری زندگی مار کھا کر رہنے یا کم سے مردوں کے زیر دست رہنے یا اس کی الوہی قوامیت کے زیر سایہ رہنے سے اچھا ہے کہ وہ خاندانی نظام میں نہ رہے۔ عورت ایسا کر سکتی ہے کیونکہ صدیوں سے اس کی سیلف ریسپکٹ کو دھکا پہنچا ہے۔ صدیوں سے مرد اس کو کچلتے آئے ہییں ۔ صدیوں سے اسے پیٹتے اور ناقص العقل کہتے آئے ہیں۔ صدیوں سے اسے مذہب اور خدا کے حوالے سے چپ کرتے آئے ہیں۔ اس طرح عورت صدیوں سے ذلیل و خوار ہوتی رہی ہے۔ اور اب اس کی عزت نفس کو ٹھیس لگ چکی ہے اس لیے وہ اسے واپس پانے کے لیے اپنا سب کچھ داو پر لگا سکتی ہے

ہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اس میں اب کوئی دو رائے نہیں ہے۔ تسلیمہ جیسی عورتیں مزید پیدا ہوں گی۔ کیونکہ اب ظلم کرنے کی باری ان کی ہے۔ مردوں نے ظلم کیا ہے۔ اور اس ظلم کا بدلہ لیا جائے گا۔ عزت نفس کو جو ٹھیس پہنچی ہے اس کی پوری پوری بھرپائی کی جائے گی۔ یہاں تک کہ مرد کو اپنے نطفے کے لیے جائے قرار نہ ملے گا اور وہ عورت کے آگے بھیگی بلی بنا ہوا خاندانی نظام کو پھر سے شروع کرنے کی گہار لگائے گا۔

گہار لگانی ہی پڑے گی۔ کہنا ہی پڑے گا کہ بس اب بہت ہو چکا۔ گھر واپس آجاو۔ اب ہم تمہیں نہیں ماریں گے۔ اب جو کہوگی کریں گے۔ جیسے چاہو رہو۔ لیکن آ جاو۔ میرے نطفے کو ایک جائے قرار چاہیے۔ براہ مہربانی حمل ٹھہرا لو۔ آج کا مرد یہی کہہ رہا ہے۔ لیکن اس کی آواز میں ابھی بھی مردانہ گرج ہے۔ ابھی اس نے سمجھا نہیں ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی پیدا ہوئی ہے اور اب مرد کی کیسی بھی گرجدار آواز اسے دہلا نہیں سکے گی۔ پہلے وہ بچوں کی خاطر کمپرومائز کرتی تھی مگر اب وہ کمپرومائز نہیں کرے گی۔

میں نے کہا ہے کہ مرد اب یہی کہہ رہا ہے کہ گھر واپس آ جاو۔ لیکن ڈانٹ کر کہہ رہا ہے۔ جیسے وہ اب بھی عورت کا بادشاہ ہو۔ ڈان کویگزوٹ کی طرح کہہ رہاہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ عورت اس کے پھٹکارنے سے گھر واپس چلی آئے گی۔ یہ اس کی بھول ہے۔ عورت اب اس کے قابو سے باہر جا چکی ہے۔ اب کتنا ہی پھٹکارو اس کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔

مرد کو خاندانی نظام کی بڑی چنتا ہے۔ اسے بڑی بے چینی ہے گھر کے برباد ہونے کی۔ بچوں کی۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے ایک وقت وہ آئے گا کہ وہ پیار سے پکارے گا، تہہ دل سے پکارے گا، نرم لہجے میں پکارے گا، کہے گا تم میرے دل کی رانی ہو۔ تم میرے گھر کی ملکہ ہو۔ تمہیں تو بڑا اونچا مقام دیا گیا ہے ہمارے مذہب، ہماری تہذیب میں۔ بعض مذہبی تحریکیں یہی کہہ رہی ہیں۔ عورت کو اسلام میں باعزت مقام دیا گیا ہے جو کسی نے نہیں دیا۔ مذہبی تحریکوں کے بھیس میں یہ بھی مرد ہی بول رہا ہے۔ باعزت مقام دیا گیا ہے، اونچا مقام دیا گیا ہے، یہ تو وہی بات ہوئی کہ تم میرے دل کی رانی ہو۔ مرد کے دل کی بات کو مذہبی زبان میں ترجمہ کر دیا گیا بس اور کچھ نہیں۔ کیا قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ عورت کو بہت اونچا مقام دیا گیا ہے؟ نہیں، یہ علما کہہ رہے ہیں۔ قرآن نہیں کہہ رہا ہے اس طرح کی کوئی بات، وہاں تو جس کا جو حق متعین کیا جا چکا ہے وہی ہے۔ لیکن جب مذہبی تحریکیں کہتی ہیں کہ عورت کو ہمارے یہاں بڑا اونچا مقام دیا گیا ہے تو اس بڑے اونچے کی کوئی تعریف متعین نہیں کی گئی۔ کتنے میٹر اونچا، یہ نہیں بتایا گیا۔ چاند سے بھی اونچا، مریخ سے بھی اونچا، اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ کس کے مقابلے میں اونچا۔ کسی کے مقابلے میں اونچا نہیں ۔ بس بہت اونچا۔ اونچائی کی اس مسلسل گردان میں بڑی چال ہے۔ مذہبی روحانی تحریکیں کہتی ہیں کہ عورت ماں ہے اور ماں کا درجہ باپ

بھی بڑا ہے۔ حالانکہ باپ سے کچھ بھی بڑا نہیں۔ ماں جہاں چاہے گی اپنی بیٹی کی وہاں شادی نہیں کرسکتی۔ ظاہر ہو گیا کہ حکم ہر حال میں باپ کا ہی چلے گا۔ اسلام میں ماں کی خدمت باپ سے زیادہ کرنے کی تلفقین کی جاتی ہے۔ لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ جس ماں کی خدمت کر رہا ہے وہی ماں اس کے باپ کی بھی خدمت کر رہی ہے۔ ماں کے مقام کو ہائی لائٹ کرنے کے ذریعے مردوادی مذہبی روحانی تحریکیں ایک اور بڑی چال چلتی ہیں۔ بڑا مکر کرتی ہیں۔ یہ سب عورت کو گھر واپس لانے کا فریب ہے۔ مگر اس مکروفریب سے بھرے ہوئے مامتا کے قصیدے میں وہ مردانہ گھن گرج نہیں پائی جاسکتی۔ اس میں تو مردوادی مصلحت کی گھگھیاہٹ ہے۔ مرد اب مذہبی لہجے میں رو رہا ہے۔ عورت کے باغی ہو جانے کے بعد اسے مذہب سوجھ رہا ہے۔ پہلے نہیں سوجھتا تھا جب گھر میں رکھے رکھے سڑا دیتے تھے۔ لکھنا نہیں سکھاتے تھے کہ عاشق کو خط لکھنے لگے گی لکھنا سیکھ کر۔ اب وہی عورت باہر جا کر کام کر رہی ہے اور خود مختار ہو گئی ہے تو لگے مذہبی لہجے میں رریانے۔۔۔۔۔۔پیاری، تمہیں تو اسلام میں بہت اونچا مقام دیا گیا ہے۔ بہوت اونچا۔ لیکن اس اونچائی کا تعین وہ کبھی نہیں کرتے۔ اور نہ کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں کھوٹ ہے۔ وہ ایک بار بہلا پھسلا کر عورت کو گھر واپس لائے نہیں کہ پھر سے اس پر اپنی وہی حکمرانی، اور بادشاہت اور الوہی قوامیت مسلط کر دیں گے۔ مابعد جدید ادوار کی عورتیں اس حقیقت کو سمجھتی ہیں۔ وہ کبھی اس فریب میں نہیں آئیں گی کہ عورت کو بہت اونچا مقام دیا گیا ہے۔ اگر بہت اونچا مقام دیا گیا ہے تو تعین کر کے بتا دینا چاہیے کہ کتنا اونچا، اونچائی کا پیمانہ آخر کیا ہے؟

اور اب وہ چلی گئی ہے مریخ پر۔ اور اس سے بھی آگے جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ مرد اس کو نہیں روک سکتاہے۔

اب برابری کی جنگ نہیں ہے۔ برابری میں تو برابر برابر ملے گا۔ زیادہ تھوڑے ہی ملے گا۔ برابری کی جنگ ہوئی اور حق برابر سے زیادہ کا ثابت ہوا تو زیادہ تھوڑے ہی دیا جائے گا۔ برابر برابر دیا جائے گا۔اس لیے عورت یہ کوشش کر رہی ہے کہ نئے سرے سے مرد وزن کے حقوق کا تعین کیا جائے۔ اس لیے اب عورت کا مطالبہ یہ ہے کہ مرد کیا کیا چھوڑنے کو تیار ہے۔ کتنی ایثارو قربانی وہ خاندانی نظام کے لیے کر سکتاہے۔ اب لو اور دو کا سوال ہے۔ زندگی پہلے بھی تجارت تھی اور اب بھی تجارت ہے۔ اور مرد اس تجارت میں کمپرومائز کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا ہے کیونکہ عورت بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ اس کی اس پوزیشن کو ٹھیک سے سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *