وہ پودا نہیں میرا بیٹا تھا۔۔۔چلو مل کر اسے جوان کرتے ہیں

بچپن سے ہی مجھے بچے بہت پسند تھے۔۔ ہنستے کھلکھلاتے ، بے پرواہ، معصوم۔۔۔یہی وجہ ہے کہ میری دوستی اپنے سے کم عمر بچوں سے بہت جلدی ہوجاتی تھی کیونکہ مجھے ان پر بہت پیار آتا تھا۔۔۔ وقت گزرتا رہا اورمیری محبت بھی بچوں سے بڑھتی گئی۔۔۔کیونکہ مجھ سے چھوٹا کوئی بہن بھائی نہیں تھا اس لئے ابا نے ایک عجیب رشتہ پودوں کے ساتھ جوڑ دیا۔۔ وہ پیار جو بچوں میں محسوس کرتی تھی اب ان پودوں سے باتیں کرکے محسوس ہونے لگا۔۔۔

میری شادی کے وقت ابا نے مجھے نیم کا ایک پودا رخصتی کے وقت دیا۔۔۔ اور کہا کہ میں نا بھی ہوں تو اس کی اچھی پرورش کرنا۔۔۔ایک روز تمہیں چھاؤں دے گا ۔۔۔ اس ننھے نیم کے پودے کو میں اپنے آنچل میں ایسے بھر کر لائی جیسے کوئی نومولود بچہ ماں کی گود میں بھر جاتا ہے۔۔۔شادی کے اگلے دن ہی میں نے اسے گھر کے پچھلے حصے میں لگا دیا اور پانی دے کر پیار کر کے سسرال کے سامنے آگئی۔۔۔وقت گزرتا رہا اور میری گود میں اذان آگیا۔۔۔ اذان کی پیدائش کے وقت بھی مجھے صرف اپنے ننھے نیم کی فکر تھی جو بظاہر تو تیزی سے قد نکال رہا تھا لیکن میں جانتی تھی کہ ایک دن بھی اگر اس سے نا ملوں تو وہ کتنا بے چین ہوجاتا ہے۔۔۔ اذان کو لے کر گھر آئی تو سب سے پہلے تڑپ کر اپنے بیٹے کے پاس بھاگی۔۔۔جی ہاں۔۔۔میرا بیٹا۔۔۔ جو مجھ سے اونچے قد کا ہو گیا تھا لیکن اس کی چھال کو جب تھپکتی تھی تو جان جاتی تھی کہ اسے کتنی خوشی محسوس ہوتی ہے اور وہ محبت سے نہال ہوجاتا۔۔۔ اس بات کو گھر میں کچھ اتنا پسند نا کیا جاتا۔۔۔میرے شوہر اور میرے سسرال والوں کو میری ذہنی کیفیت پر شبہ ہونے لگا تھا۔۔۔میں اذان کو گود میں لے کر اپنے بڑے بیٹے کی چھاؤں میں کافی دیر بیٹھتی اور اب تو لگتا تھا کہ اذان بھی اپنے بڑے بھائی کی محبت کو پہچان گیا تھا۔۔۔ میاں کا ٹرانسفر دوسرے شہر ہوگیا۔۔۔اور فیصلہ ہوا کہ یہ گھر بیچ دیا جائے۔۔۔بظاہر تو یہ ایک عام سی بات تھی لیکن میرا دل چیخ چیخ کر اپنے بچے سے بچھڑنے کا سوچ کر رو رہا تھا۔۔۔نا کچھ کھانے کو دل کرتا اور نا ہی نیند آتی۔۔۔ میاں نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ ایک درخت کے پیچھے کوئی تماشا نہیں چاہئے۔۔۔ جانے سے پہلے رات بھر بیٹھ کر اپنے لاڈلے نیم سے باتیں کیں اور اسے سمجھایا کہ تمہاری ماں کا جانا اس کی مجبوری ہے۔۔۔ اب تم بڑے ہوگئے ہو تو اپنا خیال رکھنا۔۔۔گھر جن کو بیچا انہیں خاص ہدایت دی کہ وہ اسے نا کاٹیں۔۔ اذان اب اسکول جانے لگا تھا اور ہماری پوسٹنگ واپس اسی شہر میں ہوگئی۔۔۔

دل ایسا اچھل رہا تھا جیسے ہاتھ میں آجائے گا۔۔۔ اپنے بڑے بیٹے سے ملنے جا رہی تھی ۔۔۔ اذان بھی بہت خوش تھا کہ ہم اپنے پیارے نیم کے درخت سے ملیں گے۔۔۔آنکھوں میں اس کو لگانے سے لے کر اس کے بڑے ہونے تک کا ایک ایک دن گھوم رہا تھا۔۔۔ صبح پہنچتے ہی سب سے پہلے اس گھر میں گئی جہاں میرا دل بستا تھا۔۔۔ سب کچھ بدل چکا تھا۔۔۔اس گھر کی بنیادوں کو ایسا لگتا تھا نئے انداز میں بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔میں نے تڑپ کر گھنٹی بجائی۔۔۔ میرے بیٹے اذان کا ہاتھ میرے ہاتھوں میں اور مضبوط ہوگیا۔۔۔دعا کرنے لگی کہ اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھوں اور اسے گلا لگا سکوں۔۔۔جیسے ہی دروازہ کھلا تو تڑپ کر گھر کے پچھلے حصے کی طرف بھاگی۔۔۔اذان بھی میری پیچھے تھا۔۔۔لیکن سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔۔۔دل کو جس کا دھڑکا تھا وہی ہوا۔۔۔میں اس مٹی میں ہاتھ مل رہی تھی جہاں سے میرے بچے کو اکھاڑ دیا گیا تھا۔۔۔بے یقینی کی کیفیت میں تھی کہ اچانک اذان نے اپنے ننھے ہاتھوں سے مٹی کو کھودنا شروع کیا اور ایک ننھا پودا وہاں لگا دیا۔۔۔اور اس پر پانی ڈالنے والا ہاتھ میرے شوہر کا تھا۔۔۔ میری آنکھوں کے آنسو پونچھ کر میرے شوہر نے مجھ سے کہا کہ ایک بار پھر ایک نئے بچے کو مل کر جوان کرتے ہیں۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *