حضرت علی نے فرمایا انسان کا دماغ ایک وجہ سے کمزور ہوتا ہے جانیے حضرت علی کا فرمان
لیکن ہم پھر بھی دماغ کے بارے میں جتنا جانتے ہیں، اس کا سہرا فاکندو مینز جیسے ماہرین کے سر جاتا ہے، جن کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جو دماغ کے بارے میں بہت علم رکھتے ہیں۔ارجنٹائن میں پیدا ہونے والے فاکندو مینز نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے علومِ سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے جو کہ سائنس کی دنیا میں اعلیٰ ترین تحقیق کرنے والے شخص
کو عطا کی جاتی ہے۔ہمارا دماغ ڈیٹا پروسیسر سے بڑی چیز ہے۔ آپ تصور کریں کے ہمارا سوشل برین یا معاشرتی دماغ کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ مثلاً یہ دیکھیں کہ ہمارا دماغ یہ کیسے سمجھ جاتا ہے کہ دوسرے انسان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، یوں ہم دوسرے انسان کا درد سمجھ جاتے ہیں اور ہمارا دماغ دوسرے شخص کے درد کے ردعمل میں کیا کرتا ہے۔ ہمدردی، ایثار اور تعاون ایسی صلاحیتیں ہیں جو کسی مشین میں نہیں ہو سکتیں، اور یہی صلاحیتیں انسانی زندگی کی بنیاد ہیں۔ہمیں یہ بالکل نہیں بھُولنا چاہیے کہ ہم بنیادی طور پر ایک معاشرتی مخلوق ہیں۔بالکل، ہمارا دماغ صدیوں میں ہونے والے ارتقا کی پیداوار ہے کیونکہ دماغ کی سطح پر تبدیلی ہزار ہا سال میں آتی ہے۔اگر ہم اپنی ارتقاعی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ دو لاکھ برسوں میں ہمارے دماغ کے خدوخال میں
وئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔اس لیے یہ سوچنا مشکل ہو گا کہ اگلی چند صدیوں میں دماغ کی ساخت میں کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔اور نہ ہی ارتقا کا عمل الٹا چلنا شروع کر دے گا کیونکہ کوئی چیز یاد رکھنے یا چھوٹا موٹا حساب کرنے کے لیے دماغ کا ایک چھوٹا حصہ کام کرتا ہے جبکہ دیگر کاموں کے لیے ہمیں زیادہ دماغ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمیں پھر بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کر کے اپنے دماغ پر زیادہ دباؤ نہ ڈالیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اگر دماغ پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہیں تو اس سے ہماری صحت اور دماغ دونوں متاثر ہوتے ہیں۔یہ بہت اچھا سوال ہے۔ ہم دماغ اور جذبات دونوں ہیں کیونکہ یہ مختلف چیزیں نہیں۔ہمارے دماغ میں جذبات کا بھی ایک مقام ہے اور یہی جذبات ہماری زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ جذبات ہماری یادوں پر اثر
انداز ہوتے ہیں کیونکہ ہم ان چیزوں کو بہت اچھی طرح یاد رکھتے ہیں جن کے اثرات ہم پر گہرے ہوتے ہیں۔مثلاً ہر شخص کو یاد ہے کہ وہ 11 ستمبر 2001 کے دن اس وقت کیا کر رہا تھا جب نیویارک میں ٹِون ٹاورز (ورلڈ ٹریڈ سینٹر) پر حملہ ہوا تھا، لیکن کسی شخص کو یہ یاد نہیں کہ وہ گیارہ ستمبر سے ایک دن پہلے کیا کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ جذبات ہمارے فیصلہ کرنے کے عمل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فیصلہ کرنے کے لیے ہمارے اندر دو قسم کے نظام موجود ہوتے ہیں۔ ایک نظام وہ جو خود بخود کام کرتا ہے اور تیز کام کرتا ہے۔ یہ نظام ہمارے ارتقا کی دین ہے۔ اور دوسرا نظام وہ ہے جو آہستہ اور عقلی بنیاد پر کام کرتا ہے۔فیصلہ سازی میں ہماری رہنمائی جذبات ہی کرتے ہیں، اور عقل عموماً وہ وضاحت ہوتی ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم نے مذکورہ فیصلہ کیوں کیا
Leave a Reply