بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے
کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر میں اور علی بھائی بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔ چپراسی نے علی بھائی سے آ کر کہا کہ باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے۔ یہ اس کا چوتھا چکر ہے۔ علی بھائی نے اسے بلوا لیا۔ کاروباری سا آدمی ہے۔لباس صاف ستھرا مگر چہرے پر پریشانی سے جھلک رہی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی‘ سرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا تو علی بھائی نے کہا۔ جی فرمایئے ’’فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی! کچھ عرض کرنا چاہتا
ہوں۔‘‘ اس آدمی ہوں۔‘‘ اس آدمی نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا۔ علی بھائی نے اس سے کہا: ’’آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہئے‘‘ اس آدمی نے کہا ’’چوبرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب!‘‘ ’’جی‘‘ ’’لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے‘‘ ’’کیوں‘ کیسے جا رہی ہے؟‘‘ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لئے پوچھا ’’ایک آدمی سے میں نے 70ہزار روپے قرض لئے تھے لیکن میں لوٹا نہیں سکا۔‘‘ وہ آدمی بولا ’’میں نے کچھ پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے۔
اب وہ آدمی اس فیکٹری کی قرقی لے کر آ رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھتے رہے اور اس سے کہنے لگے۔آپ کا برف خانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحقہ تو نہیں؟ ’’جی جی وہی‘‘ وہ آدمی بولا ۔۔۔۔۔۔ ’’علی بھائی میں صاحب اولاد ہوں اگر یہ فیکٹری چلی گئی تو میرا گھر برباد ہو جائے گا‘ میں مجبور ہو کر آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘ ’’فرمایئے میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ ’’میرے پاس بیس ہزار ہیں‘ پچاس ہزار آپ مجھے ادھار دے دیں میں آپ کو قسطوں میں لوٹا دوں گا۔‘‘ علی بھائی نے مسکرا کر اس آدمی کو دیکھا۔ سگریٹ سلگائی اور مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگے: ’’روبی بھائی! یہ آسمان بھی بڑا ڈرامہ باز ہے۔ کیسے کیسے ڈرامے دکھاتا ہے۔ شطرنج کی چالیں چلتا ہے۔ کبھی مات کبھی جیت۔‘‘ یہ بات کہی اور اٹھ کر اندر چلے گئے۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں نوٹوں کا ایک بنڈل تھا۔ کرسی پر بیٹھ گئے اور
اس آدمی سے کہنے لگے: ’’پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی۔‘‘وہ آدمی حیران رہ گیا اور چونک کر کہنے لگا ’’جی! یہ بہت پرانی بات ہے‘‘’’جی میں پرانی بات ہی کر رہا ہوں‘‘ علی بھائی اچانک کہیں کھو گئے۔ سگریٹ کا دھواں چھوڑ کر کچھ تلاش کرتے رہے۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے: ’’آپ کے پاس تین روپے ٹوٹے ہوئے ہیں؟‘‘’’جی جی ،ہیں‘‘ اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور ان میں سے تین روپے نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھا دیئے۔ علی بھائی نے وہ پکڑ لئے اور نوٹوں کا بنڈل اٹھا کر اس آدمی کی طرف بڑھایا۔ ’’یہ پچاس ہزار روپے ہیں‘ لے جایئے‘‘ اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔
اس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر پوچھا: ’’علی بھائی مگر یہ تین روپے آپ نے کس لئے ۔۔۔۔۔۔؟‘‘ علی بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ’’یہ میں نے آپ سے اپنے تین دن کی مزدوری لی ہے۔‘‘ ’’مزدوری …مجھ سے! میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔‘‘ اس آدمی نے یہ بات پوچھی تو ایک حیرت اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔ ’’1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا تو میں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سلیں اٹھا کر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی۔‘‘ علی بھائی نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہ جواب میرے اور اس آدمی کے لئے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف تھا۔ علی بھائی نے مزید بات آگے بڑھائی۔ ’’مگر آپ نے جب مجھے کام سے نکالا تو میرے تین دن کی مزدوری رکھ لی تھی۔ وہ آج میں نے وصول کر لی ہے۔‘‘ علی بھائی نے مسکرا کر وہ تین روپے جیب میں ڈال لئے۔ ’’آپ یہ پچاس ہزار لے جائیں‘ جب آپ سہولت محسوس کریں دے دیجئے گا۔‘‘ علی بھائی نے یہ بات کہہ کر مزے سے سگریٹ پینے لگے۔ میں اور وہ آدمی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے ہم زندہ آدمی نہ ہوں بلکہ فرعون کے عہد کی دو حنوط شدہ ممیاں کرسی پر رکھی ہوں۔احمد عقیل روبی کی کتاب ’’کھرے کھوٹے‘‘ سے اقتباس
Leave a Reply