ڈاکٹر قدیر خان سمیت مایہ ناز سائنسدان گوجرانوالہ کے بوڑھے لوہار کے پاس کیو ں گئے؟؟؟
پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور شاہین میزائل کی تیاری میں آنے والی ایک بڑی رکاوٹ کو گوجرانوالہ کے ایک بوڑھے لوہار نے دور کی تھی؟ یہ رکاوٹ کیا تھی، جو دور کروانے ڈاکٹر عبدالقدیر خان خود چل کر اس لوہار کے پاس گئے تھے۔1972ءمیں پاکستان کا ایٹمی پروگرام ڈاکٹر منیر احمد خان کی سربراہی میں شروع ہوا اور پہلا کام پاکستانی سائنسدان نے ایٹمی ایندھن کی تیاری کیلئے کارآمد تابکار مواد بنانے والی مشین Gas Centrifuge (مرکز گریزہ قوت، کسی گھومنے یا چکر کھانے والے نظام میں مرکز سے دور ہٹانے والی قوت) پر تحقیق کا کام رشوع کیا۔
یہ مشین مدھانی کے اصول پر کام کرتی ہے اور جیسے مدھانی دودھ میں مکھن نکالتی ہے۔ Gas Centrifugeتابکار موادکو انتہائی تیزی سے گول سلنڈر کے اندر گھما کر کارآمد اور غیر کارآمد ایٹموں کو الگ کرتی ہے۔ مشین جتنا تیز گھومے گی اتنا اچھا کام کریگی۔ ایک پاکستانی سائنسدان جی اے عالم نے اپنے طور پر 1975ءمیں Gas Centrifuge بنا کر تیس ہزار چکر فی منٹ پر گھمائی جی اے عالم نے پہلے کبھی یہ مشین نہ دیکھی تھی صرف اپنے عالم کے باعث اتنی پیچیدہ مشین بنا کر کامیابی سے چلا دی۔ اس حوالہ سے سال پہلے 1974ءمیں خلیل قریشی نامی پاکستانی ریاضی دان نے Gas Centrifuge کے مکمل ریاضی کلیہ کا حساب لگا کر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کر رہا تھا۔1975ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے ایٹمی شمولیت اختیار کی اس سال انہوں نے جی اے عالم سے ملاقات کی ان کی بنائی ہوئی Gas Centrifuge دیکھی۔ پاکستان آنے سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر نے ہالینڈ کی کمپنی Urenco میں کام کیا تھا۔URENCO کمپنی آج بھی موجود ہے اور دنیا بھر کے ایٹمی بجلی گھروں کو اپنے Gas Centrifuge پر مزید تحقیق کرکے کارکردگی مزید بہتر کی تھی اور یہی تجربہ ہے کہ پاکستان آئے جی اے عالم کا ڈیزائن کام کو کرتا تھا مگر
فی منٹ تیس ہزار چکرکم تھے اور اس رفتار سے ایٹمی ایندھن بنانے میں بہت طویل عرصہ لگتا تھا۔ ساتھ ہی ریاضی دان خلیل قریشی کی کیلکولیشنز رہنمائی کیلئے موجود تھی اور اسے دیکھتے ہوئے حساب لگایا گیا۔ Gas Centrifugeکو کم از کم ساٹھ ہزار RPM پر گھمانا ہوگا۔ تجربات کیے گئے اور جب بھی Gas Centrifuge مشین کے اندرونی پنکھوں کو زیادہ تیز گھمایا جاتا۔ مشین ٹوٹ پھوٹ جاتی جیسے کچی روٹی کو تیز گھمایا جائے تو پہلے اس کی گولائی بڑھتی ہے اور پھر ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ پاکستانی Gas Centrifuge کے اندرونی پنکھوں کا یہی حال تھا۔ پاکستان کے تمام بڑے سائنسدان مسئلہ حل کرنے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھ گئے اور سب اس بات پر متفق ہوئے کہ المونیم دھات کا جو مرکب Alloy پنکھے بنانے میں استعمال ہو رہا ہے وہ کمزور ہے اس لیے نیا مرکب بنانا ہوگا، کئی مہینوں کی جدوجہد کے بعد ایک نیا المونیم مرکب بنایا گیا
جو حساب کے مطابق پنکھے کی شکل میں ڈھال کر ایک منٹ میں ساٹھ ہزار بار گول گھمایا جائے تو نہیں ٹوٹے گا۔ نئی Gas Centrifuge بنائی گئی جس کے اندر کے پنکھے اس نئے المونیم مرکب سے بنائے گئے اور جب تجرباتی طور پر مشین چلائی گئی تو کچھ دنوں تک تو کچھ نہ ہوا مگر کچھ دن مسلسل چلنے کے بعد یہ مشین بھی پہلے والے ڈیزائن کی طرح زور برداشت نہ کرپائی اور ٹوٹ پھوٹ گئی، سب سائنسدان حیران رہ گئے کیونکہ حساب کے مطابق ایسا ہونا ناممکن تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر جو خود دھاتوں کے ماہر تھے وہ بھی حیران رہ گئے کہ اتنے مضبوط دھات کیسے ٹوٹ گئی اور سائنسدانوں کا ہنگامی اجلاس بلا لیا۔ مسئلہ وقت کا تھا بھارت 1974ءمیں ایٹمی دھماکے کر چکا تھا اور اس کے سال بعد کوشش کے باوجود ہماری ایٹمی ایندھن بنانے والی Gas Centrifuge کو مسائل درپیش تھے، مسئلہ جل حل کرنے والا تھا، اجلاس میں پاکستانی ریاضی دان، دھاتوں کے ماہر اور ایٹممی سائنسدان سب شریک تھےاور سب مشین کے نقشے، کیلکولیشن، دھاتی مرکب اور ہر چند کا جائزہ لیا مگر
مسئلہ حل نہ ہوا، اجلاس میں موجود چند افراد نے ایک عجیب بات کہہ ڈالی پہلے مثال دی کہ جس طرح لاعلاج مریض کو جب ڈاکٹر کی دوائی سے آرام نہیں آتا تو وہ حکیم، نجومی، عامل یا کسی اور کے پاس جانے سے بھی گریز نہیں کرتا، اسی طرح ہمیں گوجرانوالہ کے ایک لوہار کا پتہ ہے جو جدی پشتی لوہار ہے اور دھات کے ہر کام میں ماہر ہے، کچھ تذبذب کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ رازداری رکھتے ہوئے ڈاکٹر قدیر اور چند دوسرے سائنسدان خود لوہار کے پاس جائیں گے اگلے دن ڈاکٹر عبدالقدیر چند ساتھیوں کے ہمراہ لوہار کے پاس پہنچ گئے۔ ورکشاپ میں پہنچ کر بوڑھے لوہار جو کام کر رہا تھا اس کے کام ختم کرنے کا انتظار کیا گیا۔ جب لوہار فارغ ہوا تو
اس نے پہلا سوال کیا۔ صاحب کیا درانتیاں بنوانے آئے ہو، فصلوں کی کٹائی کی وجہ سے آج کل ہم درانتیاں خوب فروخت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر نے اپنا تعارف کرایا مگر اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور نہ ہی اسے ایٹمی پروگرام کا پتہ چلا۔ صاحب اصل مسئلہ بتاؤ میں مجھے صرف یہ سمجھ آئی ہے کہ آپ نے کوئی مشین بنوانی ہے۔ لوہار نے معصومیت سے کہا ڈاکٹر قدیر نے اسے آسان الفاظ میں سمجھایا کہ ہم ایک پنکھا بنانا چاہتے ہیں جو ہلکا ہو اور تیز گھومے۔ لوہار نے پوچھا جیسا کچھ گاڑیوں کے انجن میں لگا ہوتا ہے وہ میں نے ایک گاہک کیلئے بنائے تھے، دھات بھی خود بنائی تھی اور میرا پنکھا آج بھی چلتا ہے۔ڈاکٹر قدیر سمجھ گئے Turbo Charger کی بات کررہاہے جس میں پنکھا لگتا ہے جو منٹ میں ایک لاکھ بار گھومتا ہے مگر چند منٹوں کیلئے Gas Centrifuge کے پنکھے اسی رفتار سے کئی مہینے مسلسل گھومتے ہیں۔
لوہار نے مزید تفصیل پوچھی جو اسے بتائی گئی لوہار تھوڑا سوچ کر بولا کہ مجھے اپنی بھٹی پر لے چلو جہاں آپ پنکھا بناتے ہو، مسئلہ میں وہاں سمجھوں گا اور امید ہے حل بھی بتادوں گا۔ لوہار کو اس دن اٹامک انرجی کمیشن لایا گیا۔ لوہار نے کہا پہلے بنائے گئے پنکھے دکھائے جائیں۔ ایک نمونہ اسے دیا گیا۔ لوہار نے نمونے کو غور دیکھا پھر ہتھوڑی سے ہلکا سا ٹھوکا اور آواز سنی اور ہلکا سا مسکرایا۔ بولا صاحب مسئلہ سمجھ آ گیا ہے اب آپ میرے سامنے ایک پنکھے کی اسی طرح سانچے میں ڈھلائی کریں جسے آپ کرتے ہیں، شام کا وقت ہو چکا تھا اور عملہ کو اپنے اپنے گھرجانا تھا۔ مگر اس دلچسپ صورتحال کو دیکھنے کیلئے عملہ رک گیا، دھاتی مرکب کو بھٹی میں ڈال کر پگھلایا گیا ا لوہار کے سامنے سانچے میں ڈالا گیا، لوہار کھڑا دیکھتا رہا پھر بولا صاحب مسئلہ یہی ہے کہ آپ سانچے میں دھات بہت آہستہ آہستہ ڈال رہے ہیں۔ سانچے میں پہلے جانے والی دھات ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور پیچھے آنے والی نسبتاً گرم دھات اس کے ساتھ جڑ نہیں پا رہی ہے اور آپ کا پنکھا اسی لئے کمزور بن رہا ہے۔ سانچے میں ڈھلائی تیز کرو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پنکھے کی آواز سن کر ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کے اندر ڈھانچہ درست نہیں۔ ڈاکٹر قدیر اور وہاں موجود تمام انجینئر لوہار کی مہارت دیکھ کر حیران رہ گئے۔
اگلے دن Flow rate کا دوبارہ سے حساب لگایا گیا اور جیسا لوہارنے کہا تھا اس کیلکولیشن میں غلطیاں پائی گئیں اور پھر تیز ڈھلائی سے بنے پنکھے جب چلائے گئے تو پہلے ساٹھ ہزار چکر فی منٹ پر کئی دن گھمائے گئے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوئے، پنکھے کی مضبوطی دیکھ کر پھر انہیں 80 ہزار چکر فی منٹ پر چلایا گیا جو بغیر نقصان چلتے رہے اور یوں پاکستان کی پہلی Gas Centrifuge کا حتمی نقشہ بنا کر بڑے پیمانے پر پیداوار شروع ہوئی۔ اس مشین کا سرکاری نام P-1 تھا مگر انجینئرز نے لوہار کی یاد میں اس مشین کو بابے کی مشین کہا، اور بعد میں اس میں مزید بہتری لا کر رفتار اور بڑھائی گئی اور آج کی P-4 دو لاکھ چکر فی منٹ پہ گھومتی ہے۔
Leave a Reply