انمول تحفہ

یہ ولیمہ کی ایک زبردست تقریب تھی ۔ ولیمے میں اعلیٰ آفیسرز امیر لوگ پڑھے لکھے لوگ جج صاحبان وکلاء معززین اور مزید بڑے بڑے لوگوں کو انوائیٹ کیا گیا تھا۔ یہ ولیمہ اپنے وقت کے ایک بڑے اور مشہور ظریف شاعر اکبر آلہ آبادی کے بیٹے کا تھاجو بذات خود بھی اس وقت ایک مشہور اور نامی گرامی جج تھے۔ اکبر آلہ آبادی کا بیٹا بھی جوان العمر تھا بیٹے کی شادی ھے ولیمے کی تقریب ہے کہ اسکا باپ اٹھا اور اعلان کیا” معزز سامعین آپکی توجہ چاہتا ہوں

” سب لوگ اکبر آلہ آبادی کی طرف متوجہ ہوئے ” میں اپنے بیٹے کو تحفہ پیش کرنا چاہتا ہوں، “لوگ حیران ہوے کہ باپ اتنا بڑا نامی گرامی شاعر اور حاکم وقت ھے ضرور کوئی بڑئ شے ہی اپنے بیٹے کو گفٹ کرے گے کوئی سونے کی انگھوٹی؟ یا ڈائمنڈ کی انگوٹھی یا کوئی قیمتی گھڑی بھی ہوسکتی ھے یا بہو کے لیے کوئی ڈائمنڈ سیٹ بھی تو ہوسکتا ہے سب لوگوں نے دلچسپی سے ایک دوسرے سے سرگوشی میں سوال کیئے کہ آخر کیا ایسی قیمتی چیز وہ اپنے بیٹے کو دینا چاہتے ہیں، اکبر آؒلہ آبادی نے ایک گفٹ پیک اپنے بیٹے کی طرف بڑھایا والد صاحب نے کہا اسکو کھولو اور میں نے اسکو کھولنا شروع کیا ،ایک تہہ کھولی دوسری تہہ کھولی تیسری پھر چوتھی میں تہہ کھولتا جارہا تھا اور لوگوں کی دھڑکنیں سمیت میرے تیز ہوتی جارہی تھی سب کو تجسس ہورہا تھا کہ آخر اس گفٹ پیک میں ایسا کیا ھے میں نے دل میں کہا کہ ابو مجھے ایسا کیا قیمتی تحفہ دے رہے ہیں جب آخری تہہ کھولی تو اندر سے بچوں کے کھیلنے کا ایک چھوٹا سا کھلونا نکلا،

دعوت پہ آئے لوگوں نے جب وہ کھلونا دیکھا تو سب ہنسنے لگے ، اکبر آلہ آبادی کا بیٹا کہتا ھے کہ مجھے کافی شرمندگی ہوئی کہ میری زندگی کا یہ ایک یادگار دن ھے اور اس کھلونے کی وجہ سے میرے باپ نے میرا موڈ ہی خراب کردیا، لوگوں کے سامنے جگ ہنسائی ہوءی میں زرا خاموش ہوگیا ، لوگ ہنسے مسکرائے انجواے کیا اور چل دیئے! کچھ دنوں کے بعد ابو سے گپ شپ ہورہی تھی تو میں نے دبک کر کہا ابو جی ولیمے والے دن جو آپ نے مجھے کھلونا دیا تھا اس سے میری کافی عزتی ہوئی تھی سب کے سامنے جگ ہنسائی ہوئی تھی لوگ ہنس رہے تھے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹے کو ایک کھلونا تحفے میں دیا، اتنی بڑی تقریب ، شہر کے سب معزز ججوں کے سامنے آپ نے میری توہین کردی ابا جی،میرے والد صاحب مسکرائے اور شفقت سے کہا” میرے بیٹے میں تم کو ایک مسج دینا چاہتا تھا ،

جب تو بچہ تھا تب میں کافی غریب تھا ایک دن میرے پاس پیسے نہیں تھے اور تم کو یہ کھلونا پسند آگیا تھا تم نے اسی کھلونے کو خریدنے کا مطالبہ کیا تھا جو میں خرید نہ سکا۔ تم اس بھت روئے تھے اتنے خفا ہوگئے تھے کہ مجھ سے ایک ہفتہ مسلسل بات بھی نہیں کی تھی، یعنی تم کو اس کھلونے کی اتنی چاہت تھی کہ اس نے تم کو مجھ سے ایک ہفتہ دور کردیا،آج میں نے سوچا کہ تمہاری شادی کی تقریب ہے لہذا تم کو بچپن والا کھلونا خرید کر دے دوں اور آپ کو سمجھاوں کہ دیکھو بیٹا بچپن میں اسی کھلونے کو خریدنا آپکی سب سے بڑی آرزو تھی لیکن جب جوانی میں پہنچے اور بھرے مجمع میں آپکو لوگوں کے سامنے آپکی تمنا پوری کرکہ دی۔

اب جب کہ میں نے آپکو وہ کھلونا دے دیا تو آپکو خود ہی شرمندگی محسوس ہوئی اگر چہ اس کھلونےکے لیے آپ نے مجھ سے بولنا بھی بند کردیا تھا۔میرے بچے اگر بچپن کی تمنائیں بندے کے سامنے جوانی میں کھولی جاے تو بھرے مجعے میں بندے کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ھے ، لہذا تم جوانی میں کوئی ایسی آرزو اور تمنا ہرگز مت بنانا کہ کل بروز قیامت اللہ پاک کے سامنے بھرے مجمع میں اگر اسکو کھول دیا جاے تو تم کو وہاں شرمندگی اٹھانی پڑے یہ میری نصیحت ہے اور اسکو سوچ کر آگے بڑھنا۔ یہ تحریر اچھی لگی ہو تو شیئر کرنے میں کنجوسی بلکل نہ کرے، اور زیادہ سے زیادہ شیئر کرے جزاک اللہ خیرا کثیرا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *