وہ مشہور زمانہ اسٹیج اداکار تھی اور ایک رات کی دلہن کے لقب سے جانی جاتی تھی

نمی کئی سال پہلے مر چکی ہے، نمی کی ماں اور نجمہ رومانی کی ماں سگی بہنیں تھیں اور دونوں ایک جیسی قسمت لکھوا کر دنیا میں وارد ہوئی تھیں، آج کل جو ثنآ اور نور ہیں ، یہ دونوں بھی خالہ زاد ہیں. لاہور میں واپڈا ہاؤ س نیا نیا بنا تھا ، اس کے تہہ خانے میں تھیٹر قائم کیا گیا جس میں ڈرامے اسٹیج کئے جا رہے تھے، ’’ اج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ بھی پہلی بار اسی تھیٹر میں پیش کیا گیا تھا، واپڈا ہاؤس والی جگہ پر پہلے ہوٹل ہوا کرتا تھا، جس کے اندر ایک بار بھی تھا ، گرمیوں کے دنوں میں یہ بار باہر ہوٹل کے کھلے میدان میں منتقل ہوجاتا، جب قائد اعظم قیام پاکستان سے پہلے ایک بار اس ہوٹل میں ٹھہرے تھے اس وقت اس کا نام ہوٹل نیڈو تھا.

بات ہو رہی تھی واپڈا ہاؤس کے تہہ خانے میں تھیٹر کی، ایک دن جانی مجھے ڈرامہ دکھانے لے گیا، تھیٹر آرٹسٹوں سے اس کے گہرے مراسم بن چکے تھے، جانی نے مجھے بتایا کہ اس ڈرامے کی ہیروئن کا نام قمر جہاں آراء ہے اور یہ اس لڑکی کا پہلا ڈرامہ ہے. قمر جہاں کی ایک اور بہن نصرت آراء بھی ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں میں چھوٹے موٹے رول کرتی تھی، یہ وہی نصرت آراء ہے جو پی ٹی وی کے ڈرامے ’’عینک والا جن‘‘ میں چڑیل بنی تھی، یہ چڑیل ہمارے دوست ’’الامہ‘‘ پر کئی سال سوار رہی۔ ڈرامہ بہت اچھا تھا، اس کے کئی ایکٹر میرے بھی دوست تھے، جانی نے ڈرامے کی ہیروئن سے میری ملاقات کرائی ، قمر جہاں آراء کے ساتھ باتیں کرتا ہوا میں سوچ رہا تھا ’’ اس لڑکی کا نام ’’نمکین ‘‘ ہونا چاہئے، اس کا چہرہ اداس بادلوں کی طرح تھا، اس کی مسکراہٹ میں اسرار سا تھا، مجھے لگا، اس لڑکی کے بدن میں کئی کہانیاں پنہاں ہیں، وہ کہانیاں کیا ہیں؟ مجھے اس کی کھوج لگانا چاہئیے۔

میں نے باتوں باتوں میں اس کے گھر کا ایڈریس لیا اور طے یہ ہوا کہ اگلے ہفتے جب یہ ڈرامہ ختم ہو جائے گا ، میں اس سے ملنے آؤں گا، دن اور وقت کا میں جانی کو بتا دوں گا، قمر آراء جہاں کی ماں بھی ساتھ موجود تھی، یہ عورت کئی مشہور و معروف فلمی ہیروئنوں کی ماؤں کی طرح موٹی اور بھدی نہ تھی. ہماری گفتگو میں اس نے مداخلت بھی نہ کی تھی ، دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنے والی عورت لگتی تھی ، اس نے بھی مجھ سے وعدہ لیا کہ میں ان کے گھر ضرور آؤں گااور پھر وہ دن آگیا جب مجھے اس نمکین لڑکی سے ملنے جانا تھا، جانی نے مجھے بتایا کہ بس سے ساندہ کے طارق منزل اسٹاپ پر اتر جانا، اسٹاپ سے اترتے ہی بائیں ہاتھ پر ایک چھوٹا سا مکان ہے، دروازے پر بوری کا بنا ہوا پردہ لٹکا ہوگا اور میں ایک گھنٹے بعداس دروازے پر دستک دے رہا تھا، اندر سے نسوانی آواز آئی ’’ آ جائیں ‘‘ یہ ایک مرلے کا مکان تھا ، چھوٹا سا صحن اور ایک بوسیدہ کمرہ ، قمر جہاں کی ماں ایک ٹوٹی ہوئی چار پائی پر لیٹی دھوپ سینک رہی تھی.

کوئی گفتگو کئے بغیر اس نے اشارہ کیا کہ میں کمرے میں جا سکتا ہوں، کمرے میں ایک چارپائی اور دو پرانی کرسیوں کے ساتھ قمر آراء بھی موجود تھی، میں بوکھلا گیا، حواس باختہ ہو گیا’’ کیا یہ اسٹیج ڈرامے کی وہ ہیروئن ہے، جسے دیکھنے روزانہ درجنوں لوگ واپڈا ہاؤس کے تھیٹر میں جاتے ہیں، میں اس نمکین لڑکی سے کوئی بات کرنے کی طاقت بھی کھو چکا تھا، اسی دوران قمر آراء کی ماں بھی کمرے میں آگئی.’’ آپ اسے فلم نگر میں لے جائیں، بہت سندر ہے اور با صلاحیت بھی، بہت جلد کامیاب ہیروئن بن جائے گی ‘‘جواب تو گویا قمر جہاں کی ماں کی زبان پر پہلے سے موجود تھا۔ ’’ یہ پہلے ہی کئی درجن فلموں کی ہیروئن بن چکی ہے‘‘

’’ پہلے ہی کئی فلموں کی ہیروئن، کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ ’’بیٹا ، ہر رات کوئی نہ کوئی ڈائریکٹر کوئی پروڈیوسر اس کمرے کا مہمان ہوتا ہے، ساری رات شوٹنگ ہوتی ہے، صبح تک فلم مکمل ہوجاتی ہے‘‘ میرے لئے کچھ اور سننا، کچھ اور جاننا مشکل تھا، میں اس کمرے سے نکل کر واپس بس اسٹاپ پر پہنچ گیا۔۔۔ میں جس قمر آراء جہاں سے ملنے گیا تھا، ایک سال وہ واقعی فلمی ہیروئن بن گئی، فلمی نام رکھا گیا ’’ نمی‘‘ اس کی پہلی فلم عید کے روز ریجنٹ سینیما میں ریلیز ہوئی، فلم کا نام تھا ’’ دلہن ایک رات کی۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *