افسانہ: دائرہ

ہمارے گاؤں میں ایک فقیر آیا کرتا تھا سب اس کو بابا قصورا کے نام سے جانتے تھے وہ کون تھا کہاں سے آیا تھا ؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم ۔ وہ جب بھی دروازے پر دستک دیتا تھا تو دستک کے بعد ایک طرف ہوکر بیٹھ جاتا تھا اور زمین پر شہادت کی انگلی سے ایک دائرہ بنا لیتا تھا۔ اس دائرے کو غور سے دیکھنے کے بعد بس ایک ہی بات کہتا تھا” کہ اپنے دائرے سے باہر مت نکلو ورنہ اپنی موت آپ مر جاؤ گے۔”

اور رو پڑتے تھے شاید بہت رونے کی وجہ سے ان کی آنکھوں​ میں آنسو کا چشمہ خشک ہو چکا تھا اس لئے آنسو نہیں نکلتے تھے لیکن ان کی آواز سے درد و کرب محسوس ہوتا تھا اور پھر خاموش ہوجاتا تھا۔ بابا قصورا کسی سے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔

مجھے بابا کی بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی تو میں نے ایک دن ان سے پوچھا بابا آپ کے اس بات کا کیا مطلب ہے کہ دائرے سے باہر مت نکلو ورنہ اپنی موت آپ مر جاؤ گے۔ وہ خاموش رہا میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمانے لگا پتر اپنی عمر سے سو سال بڑا سوال پوچھ لیا تم نے میں حیران ہو گیا کہ میں نے ایسا کیا پوچھا کہ بابا یہ بات کہہ دی، میں نے تو بس ان کی بات کی انہی سے وجہ پوچھی۔ بابا کہنے لگے مجھے 20 سال ہوگئے اس حقیقت کو سمجھانے کی گھر گھر دستک دیتا ہوں مگر آج تک کسی نے مجھ سے یہ وجہ ہی نہیں پوچھی کہ میں یہ بات کیوں کہتا ہوں، بس سب اپنے بنائے ہوئے خیالوں کی جوگیوں میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔ رشتوں کی جگہ تنہائیوں نے پر کر لی، قربتوں کی جگہ شکایتوں نے لے لی، اپنوں کی جگہ دشمنوں نے سنبھالی، اور فرصت کی جگہ مصروفیت نے ۔

پھر کہنے لگے پتر جانتے ہو یہ مصروفیت کیا بلا ہوتی ہے میں نے حسب عادت اپنی کم علمی کا بابنگ دہل اعتراف کرتے ہوئے کہا نہیں بابا کچھ نہیں جانتا کہنے لگے، جب ہم کچھ بھی نہیں کر رہے ہوتے اور پھر بھی ہمارے پاس خود کو اور دوسروں کو فائدہ دینے کے لئے وقت نہ ہو، مجھے بابا کی بات کی سمجھ نہیں آئی میں نے پوچھا بابا مجھے پھر بھی سمجھ نہیں آئی بابا نے شائد پہلی دفعہ مسکرایا ہو 20 سالوں میں ۔ میری طرف دیکھ کر فرمایا پتر جب آپ کو کام سے عشق ہوگا تو آپ مصروف نہیں ہوگے اور نہ وقت کا پتہ چلے گا۔ آپ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے پھر۔ لیکن یہاں تو سب ان منزلوں کے مسافر ہیں جس کی نہ ابتداء ہے اور نہ انتہا۔

بابا قصورا فرمانے لگے پتر، میرا بچپن بہت غربت میں گزرا ، محنت کرکے پیسہ کمایا، اپنے وقت کا امیر ترین شخص تھا اپنے علاقے کا لیکن امارت کے ساتھ ساتھ غرور کی جڑی بوٹیاں بھی اگنی لگیں اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا میں پھسلتا رہا اور اپنی مدار سے نکلتا رہا۔ میرے اندر غرور کیکر کی درخت کی طرح اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگا اور ایک کانٹوں کا جنگل بنتا رہا۔ میری زندگی سے رشتے ململ کی چادر کی طرح سرکنے لگیں اور میں گلستان سے دشت میں بدلنے لگا۔ پتر اللّٰہ جتنا رحمت دے کر آزماتا ہے اتنا آزمائش میں نہیں آزماتا۔ اللّٰہ کو ہر حالت میں خوش رکھو لیکن رحمت کی حالت میں حد سے زیادہ خوش رکھو، خوش رکھنے کا بہترین طریقہ شکر ادا کرنا ہے بس۔

پتر جب میں نے اپنی ساری حدیں عبور کر لی، اپنے اختیار سے بڑھنے لگا، اپنی اوقات بھول گیا تھا میں، تو اللّٰہ نے جھٹکا دے کر خزاں کے پتوں کی مانند مجھے پت جڑ کر دیا اپنی دولتِ سے اور شہرت سے عزت سے میں کچھ نہ کر سکا خالی ہاتھ رہ گیا۔ بابا کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے میرے کندھے پر تھپکی دے کر کہنے لگے، پتر ہمیشہ ہر کام کو، ہر بات کو، اور اپنے آپ کو اختیار میں رکھو، سب کچھ اپنی استطاعت کے مطابق کرو، اپنی اوقات کبھی نا بولنا، عاجزی بھی ہوگی اور خدمت خلق بھی۔۔۔ اپنے دائرے سے باہر مت نکلنا ورنہ بابا قصورا کی طرح بھٹکتے پھرتے رہو گے، نہ اپنے ہوں گے نہ اپنا آپ۔ بابا اٹھ کر چلے گئے، پھر کبھی نہیں آئے ہمارے گاؤں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *