ایک اشرفی
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کہیں ایک خوشحال شخص رہتا تھا۔ اس کا ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ ماں کے اکلوتے بیٹے کیلئے فطری خوف کے تحت مگر ناز و نعم میں پلا ہوا، یہاں تک کہ جوان ہو گیا۔ نہ کوئی ہنر ، نہ ہی کسی کام کا تجربہ۔ اسے ایک ہی کام آتا تھا اور وہ تھا باپ سے چھپا کر ماں کے دیئے ہوئے پیسوں سے کھیل کود اور مستیاں کرنا اور سڑکوں چوراہوں پر وقت گزارنا۔
اور ایک دن صبح کے وقت باپ نے اسے آواز دیکر اپنے پاس بلایا اور کہا: بیٹے اب تم بڑے ہو گئے ہو اور خیر سے جوان بھی ہو۔ آج سے اپنی ذات پر بھروسہ کرنا سیکھو، اپنے پسینے کو بہا کر کمائی کرو اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھو۔
بیٹے کو یہ بات کچھ ناگوار سی گزری، تقریباً احتجاج بھرے انداز میں اس نے باپ سے کہا: مجھے تو کوئی کام کرنا نہیں آتا۔
باپ نے کہا: کوئی بات نہیں، اب سیکھ لو، تم آج ہی شہر روانہ ہو جاؤ، اور یاد رکھو جب تک میرے لئے ایک سونے کی اشرفی نہ کما لینا لوٹ کر واپس نہ آنا۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، بیٹا گھر سے جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ اس کی ماں جو یہ سب گفتگو چھپ کر سن چکی تھی بیٹے کے سامنے آ گئی، مٹھی میں چھپائی ہوئی اشرفی بیٹے کو دیتے ہوئے بولی کہ شہر چلے جاؤ، رات گئے لوٹ کر یہ اشرفی باپ کو لا کر دینا اور کہنا کہ میں شہر سے کما کر لایا ہوں۔ اور یہ نوجوان خوشی خوشی گھر سے روانہ ہو گیا۔
شام گئے لوٹ کر بیٹے نے ویسے ہی کیا جس طرح اسکی ماں نے اسے سمجھایا تھا، سیدھا باپ کے پاس جاکر بولا: ابا جان، یہ لیجیئے سونے کی اشرفی، میں نے سارا دن بہت جان لڑا کر کام کیا اور بہت ہی مشکل سے یہ اشرفی کما کر آپ کے پاس لایا ہوں۔
باپ نے اشرفی کو لیکر کافی غور سے دیکھا، پھر آتشدان میں جلتی آگ میں جھونکتے ہوئے بیٹے سے کہا: نہیں برخوردار، یہ وہ اشرفی نہیں ہے جو میں نے مانگی تھی۔ تم کل سے دوبارہ کام پر جاؤ اور دیکھ لینا جب تک ایک اشرفی کما نہ لینا لوٹ کر واپس نہ آنا۔
بیٹا خاموشی سے باپ کی اس حرکت کو دیکھتا رہا، نہ کوئی احتجاج اور نہ کوئی ردِ عمل۔
دوسرے دن شہر کو جانے کیلئے گھر سے باہر نکلتے ہوئے دروازے کی اوٹ میں ماں کو پھر منتظر پایا، ماں نے اس کی مٹھی پر ایک اور اشرفی رکھتے ہوئے کہا: بیٹے اس بار جلدی واپس نہ آنا، شہر میں دو یا تین دن رکے رہنا، اور پھر لوٹ کر باپ کو یہ اشرفی لا دینا۔
بیٹے نے شہر جا کر ماں کے کہے پر عمل کیا ، تین دن کے بعد گھر لوٹ کر سیدھا باپ کے پاس گیا اور اشرفی اسے
تھماتے ہوئے کہا: اے والد محترم، یہ لیجیئے سونے کی اشرفی، اسے کمانے کیلئے مجھے بہت کٹھن محنت کرنا پڑی ہے۔
باپ نے اشرفی لیکر اسے کافی دیر غور سے دیکھا اور دوبارہ یہ کہتے ہوئے آگ میں پھینک دی کہ: بیٹے یہ وہ اشرفی نہیں ہے جو میں چاہتا ہوں، کل تم پھر سے کام کیلئے جاؤ اور اس وقت تک نہ لوٹنا جب تک اشرفی نہ کما لینا۔
اس بار بھی اپنے باپ کی اس حرکت پر بیٹا بغیر کوئی ایک لفظ بولے خاموش رہا۔
تیسری مرتبہ اس بار یہ نوجوان اپنی ماں کے جاگنے سے پہلے ہی شہر کی طرف روانہ ہو گیا اور وہاں ایک مہینہ رہا۔ اور اس بار ایک مہینے کے بعد حقیقی معنوں میں محنت و مشقت سے کماکر اشرفی کو نہایت حفاظت سے مٹھی میں دبائے ، مسکراتے ہوئے اپنے باپ کے پاس حاضر ہوا، اشرفی باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا: اے والدِ محترم، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس بار یہ اشرفی میرے پسینے کی کمائی ہے، یقین کیجئے اسے کمانے کیلئے مجھے بہت محنت کرنا پڑی ہے۔
سونے کی اشرفی کو ہاتھ میں لیکر باپ کافی غور سے دیکھتا رہا، اس سے پہلے کہ اسکا باپ اشرفی کو آگ میں ڈالنے کیلئے ہاتھ بڑھاتا، نوجوان نے آگے بڑھ کر باپ کا ہاتھ تھام لیا۔اس بار باپ ہنس دیا اور بڑھ کر بیٹے کو گلے لگاتے ہوئے کہا: اب بنے ہو جوان تم!بے شک یہ اشرفی تیری محنت اور پسینے کی کمائی ہے۔ کیونکہ اسے ضائع ہونا تجھ سے نہیں دیکھا گیا۔ جبکہ اس سے پہلے میں دو بار اشرفیاں آگ میں پھینک چکا ہوں مگر تجھے کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔
سچ ہے کہ بغیر محنت کے آنے والا مال جاتا بھی تو اسی آسانی سے ہے ۔“
Leave a Reply