موبائل فون
عارف چودہ پندرہ سال کا ایک معصوم نوجوان تھا ۔۔ نئی دنیا کھوجنے کی خواہش دل میں لیے وہ جوانی کی طرف قدم بڑھا رہا تھا ۔۔ ماں باپ کا لاڈلا تھا اس لیے اکثر خواہشیں ضد کیے بغیر پوری ہو جاتی تھیں۔۔ چند دن سے وہ اپنے باپ سے نیا موبائل لینے کی ضد کر رہا تھا ۔۔ باپ پہلے تو ٹالتا رہا لیکن پھر کسی نہ کسی طرح اس نے موبائل لا دیا۔
عارف موبائل لے کر بہت خوش تھا ۔۔ کچھ دن تو وہ گانے وغیرہ سنتا ، گیمز کھیلتا رہا پھر ایک دن اس کے ہاتھ ایک سم لگ گئی ۔۔ اب اس کا زیادہ وقت لوگوں کو کال کرکے تنگ کرنے میں گذرتا تھا ۔۔ ایک دن مختلف نمبر ڈائل کرتے ایک نمبر پر کال مل گئی تو کسی لڑکی نے بات کی ؛؛ دو چار دفعہ بات ہونے کے بعد ان میں دوستی ہوگئی اور پھر دونوں اکثر لمبی لمبی باتیں کرنے لگے ۔۔ موبائل کمپنی کی طرف سے پیکجز کی شکل میں دی ہوئی سہولت نے انکا کام اور آسان کر دیا اور وہ تھوڑے سے پیسوں میں کئی کئی گھنٹے بات کر لیتے ۔ ۔ ۔
ایک شام مغرب کے بعد عارف گھر بیٹھا تھا کہ اسی لڑکی کی کال آگئی ۔ باپ گھر پر تھا اس لیے وہاں بات کرنا ممکن نہیں تھا تو اس نے ہینڈ فری کانوں میں لگائی اور باہر نکل گیا ۔ رات کا اندھیرا چھانا شروع ہوگیا تھا ۔ وہ کسی کی مداخلت سے بچنے کے لیے اپنے گھر سے تھوڑی دور گزرتی ریلوے لائن پر چلا گیا اور وہاں بیٹھ کر اطمنان سے بات کرنے لگ گیا ۔ ہینڈ فری کانوں کو لگائے وہ باتوں میں اتنا مشغول تھا کہ اسے یہ خیال نہ رہا کہ وہ کہاں بیٹھا ہے اور کیا وقت ہو گیا ہے اور اس وقت وہاں سے ایک ٹرین گذرتی ہے ۔ تھوڑی دیر بعد اس کے عقب میں ٹرین اسی پٹری پر آتی دکھائی دی ۔ ڈرائیور نے دیکھا کہ کوئی اس کی طرف پشت کیے پٹری پر ٹہل رہا ہے ۔ اس نے ہارن پہ ہارن دیا لیکن عارف لڑکی سے بات کرنے میں اتنا مگن تھا کہ اسے ہارن سنائی نہ دیا۔ نہ ہی اسے ٹرین کی دور سے پڑنے والی لائٹ دکھائی دی ۔ اور پھر وہی ہوا جس کے بارے میں شاید کسی نے سوچا بھی نہ تھا ۔ ٹرین پوری رفتار سے آکر اس سے ٹکرائی اور پھر چند سیکنڈ بعد وہاں عارف کی خون میں ڈوبی ہوئی لاش پڑی تھی ۔۔ ہاتھ میں موبائل فون سختی سے پکڑا ہوا تھا لیکن موبائل پر بات کرنے والا اس دنیا میں نہیں رہا تھا ۔۔
ماں خبر سنتے ہی اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی اور باپ ہمیشہ کے لیے اس پچھتاوے کا شکار ہو گیا کہ اس نے اپنے بیٹے کی خواہش تو پوری کردی لیکن اس پر توجہ نہ دی ۔ ۔ ۔
یہ ایک سچا واقعہ ہے جو چند دن پہلے ہمارے ایک عزیز کے گھر کے پاس پیش آیا ۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا عارف ذرا سی لاپرواہی سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ یقیناََ اس کی موت اسی جگہ لکھی تھی اس لیے جو ہوا وہ مقدر تھا لیکن کیا واقعی اس معاملے میں کسی کا بھی قصور نہیں ہے ۔۔؟؟؟ کیا ان ماں باپ کا قصور نہیں ہے جو اپنی اولاد کی بے جا خواہشات کو بھی پورا کرتے ہیں ۔۔ چاہے وہ انکے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔ بچہ اگر آگ مانگ لے تو کیا ماں باپ اسے آگ لا کر دے دیں گے ۔۔ کیا بچوں کی خواہشات پوری کر دینے کے بعد ماں باپ کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی اچھائی برائی کی تعلیم دینا ۔۔ صحیح چیز کی طرف رہنمائی اور ان کی نگرانی کرنا کیا ماں باپ کی ذمہ داری نہیں .؟؟ کیا ہماری موبائل کمپنیز اس کی موت کی ذمہ دار نہیں جو اپنے منافع کے لیے نوجوان نسل کوچند روپوں میں گھنٹوں باتیں کرنے کا موقع فراہم کرکے برباد کر رہی ہیں ۔ ۔ ۔
کیا وہ حکومت ذمہ دار نہیں ہے جس نے اس برائی کی طرف سے چشم پوشی کی ہوئی ہے اور ان کمپنیز کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے ۔۔ یا ان سب سے بڑھ کر نوجوان لڑکے لڑکیاں ذمہ دار نہیں ہیں جو اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ، انکے اعتماد کا خون کر کے اپنا قیمتی وقت اس قسم کی فضول حرکات میں برباد کر رہے ہیں اور اپنے خاندان کی عزت کو داؤ پر لگا رہے ہیں ۔ ۔ ۔
عارف تو اپنے ماں باپ کو ساری زندگی کا دکھ دے کر اس دنیا سے چلا گیا لیکن نہ جانے کتنے ماں باپ اپنے بچوں کی وجہ سے اس دکھ کا شکار ہوئے ہونگےاور ہوتے رہیں گے ۔ کتنی لڑکیاں اپنی غلطی کی وجہ سے ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکال کر روز مرتی ہونگی ۔۔۔؟؟
کیا اس کا کوئی علاج ہے۔۔۔؟؟؟
کوئی ہے جو اس طرف توجہ دے۔۔۔؟؟؟
کوئی ہے جو نوجوان نسل کو اس ہلاکت سے بچائے۔۔۔؟؟؟
Leave a Reply