جیسی کرنی ویسی بھرنی
ایک بادشاہ بہت ظالم اور جابر تھا۔ اسکی ہیبت کے قصے سارے ملک میں مشہور تھے، لوگ اس سے نفرت کرتے تھے اور اس کا نام آتے ہی لوگ کانپنے لگتے تھے۔
ایک دن جانے کیا ہوا بادشاہ نے سارے شہر کو مدعو کیا کہ ایک اہم اعلان کرنا ہے۔
جب سب لوگ جمع ہو گئے تو بادشاہ نے اعلان کیا کہ میں آپ کا شہنشاہ آج آپ ساری رعایا کی موجودگی میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد کبھی کسی کے ساتھ نا انصافی اور سختی نہیں کروں گا اور میرا وطیرہ صرف شفقت اور نرمی ہوں گے اور تاریخ کے پنوں میں میرا نام سب سے نرم دل بادشاہوں میں شمار کیا جائے گا۔ سب لوگ بہت حیران ہوئے کہ شاید بادشاہ سٹھیا گیا ہے، اس کو کیا ہو چلا ہے۔
خیر۔۔۔۔ سب نے سوچا کہ بس ایسے ہی بول رہا ہے۔ وقت بتائے گا کہ یہ بدلا ہے کہ نہیں۔ بادشاہ دراصل بلکل بدل گیا تھا اور ساری عوام اس سے نہایت خوش اور مطمئن تھی۔ کئی مہینے بادشاہ اسی طرح رہا، وزیر سے صبر نہ ہوا اور ایک دن ہمت کر کے بادشاہ سے پوچھا کہ اے بادشاہ! آخر کس وجہ سے آپ کا دل بدل گیا؟
بادشاہ بولا:- کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میں جنگل میں جا رہا تھا کہ میری نظر ایک لومڑی پر پڑی، وہ بیچاری بھاگ رہی تھی اس کے پیچھے ایک بڑا سا کتا لگا ہوا تھا۔ لومڑی کو اپنا بل نظر آگیا اور وہ اس میں چھلانگ لگا رہی تھی کہ کتے نے اس کی ٹانگ پکڑ لی اور زور سے اس پر چک مارا۔ لومڑی نے پوری جان لگائی اور اپنی معزور ٹانگ گھسیٹ کر بل میں گھس گئی۔ اس کتے نے بیچاری لومڑی کو معزور کردیا تھا۔ کچھ دیر بعد میں گاؤں میں پہنچا تو دیکھا کہ وہی خونخوار کتا ایک آدمی پر بھونکے جا رہا تھا۔
اس آدمی کو غصہ آیا اور اس نے کھینچ کر ایک بھاری سا پتھر بیچارے کو دے مارا ۔ کتا خود بھی اسی طرح ٹانگ سے معزور ہو گیا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اوپر والے کی لاٹھی بے آواز ہے کہ اسی آدمی کو ایک گھوڑے نے دولتی ماری اور اس کی بھی ایک ٹانگ فارغ ہو گئی۔ گھوڑا بھاگ رہا تھا اور آگے جا کر ایک گڑھے میں گر گیا۔ اتنا دیکھ کر ہی میری حالت غیر ہو گئی اور میں نے سوچا کہ میں اتنا ظالم ہوں، ہر ایک پر حکم چلاتا ہوں۔ کسی کی پرواہ نہیں کرتا تو میرا خالق میرے ساتھ بھی وہی کرے گا جو میں اس کی مخلوق کے ساتھ کرتا ہوں تو ایک ہی ترکیب سجھائی دی کہ کیوں نہ میں اپنی رعایا کے ساتھ اچھا ہو جاؤں تاکہ میرے ساتھ بھی اچھا ہو۔ بس اتنی سی بات تھی۔ وزیر ایک عیار اور مکار آدمی تھا۔ بادشاہ کی کہانی سن کر بھی اس کا دل نا پسیجا۔ بے حس آدمی ادھر سے اٹھا اور دل میں سوچا کہ بادشاہ فارغ ہو گیا ہے، یہی وقت ہے کہ میں اس کا تخت ہتھیا لوں۔ ایسی غلیظ سوچ ابھی اس کے دماغ کی دہلیز پر ہی تھی کہ خالق کا نظام کام میں جُٹ گیا اور گھٹیا وزیر دھڑام سے سیڑھیوں سے گرا اور اس کی گردن دو ٹکڑے ہو گئی۔جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
سبق:- کسی کے ساتھ برا کر کے یہ مت سمجھو کہ کسی نے نہیں دیکھا میں بچ گیا، جو دیکھ رہا ہے جب وہ پکڑ کرتا ہے تو بڑے سے بڑا سلطان گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ اچھا کرو اور صلے کی امید لوگوں سے مت رکھو اور برا کرو تو یاد رکھو کہ اب کہیں زمین پناہ نہیں دے گی اور پھر چپ کر کے اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتو۔ بہترین حکمت عملی:-“نہ برا سوچو نہ برا کرو”۔
Leave a Reply