ایک بھوکا شحص

ایک بستی میں ایک بھوکا شخص آ گیا لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی نے کچھ نہیں دیا، بیچارہ رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پاتھ پر گیا صبح آ کر لوگوں نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا.

اب “اہل ایمان” کا “جذبہ ایمانی” بیدار ھوا، بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دیگیں چڑھا دی گئیں۔ یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا: ” ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو۔؟ اسے چند لقمے دے دیتے تو یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نا مرتا.”

پچھلے دنوں ایک تاجر نے ایک مزار پر دس لاکھ روپے مالیت کی چادر چڑہائی جب کہ مزار کے سامنے کے محلے میں درجنوں ایسے بچے گھوم رہے ہو ہیں جنہوں نے قمیص پہنی ہوتی ہے تو شلوار ندارد اور شلوار ہے تو قمص نہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی فرمایا کرتے تھے کہ تم جو چادریں قبر پر چڑھاتے ہو اس کے زندہ لوگ زیادہ حقدار ہیں.
ایک شخص رکے ہوئے بقایاجات کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ مظاہرے کرتا رہا، حکومت ٹس سے مس نا ھوئی تنگ آ کر اس نے خود سوزی کرلی تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کر دی گئی۔ اسی طرح ایک صاحب کے مکان پر قبضہ ہو گیا، بڑی بھاگ دوڑ کی مگر کوئی سننے کو تیار نہیں ہوا اسی دوران دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ھوئے اسے دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ھوا، پولیس نے پھرتی دکھائی اور دوسرے ہی دن مکان سے قبضہ ختم کروا دیا۔ فائدہ..؟؟

کیا اب اس مکان میں اس کا ہمزاد آ کر رھے گا..؟؟ کیا ھمارا “جذبہ ایمانی” صرف مردوں کے لیے رہ گیا ھے..؟؟
ایک منٹ کو رکیے اور آنکھیں بند کر کے اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر دوڑائیں، اپنے پڑوسیوں پر ، اپنے رشتےداروں پر ، جو آپ کی گلی میں ٹھیلے والا ہے اس پر ، جو ایک مزدور آپ کے محلے میں کام کر رہا ہے اس پر ، جو آپ کے یہاں یا آپ کے دفاتر میں چھوٹے ملازم ہیں ان پر ،

یہ سب لوگ ہمارے کتنا قریب رہتے ہیں اور ہمیں معلوم بھی نہیں ان کے ساتھ کیا کچھ بیت رہی ہے۔ ہمیں اس لیے نہیں معلوم کہ ہم ان کے قریب رہتے ہوئے بھی ان سے دور ہیں، ہم نے کبھی ان کا احساس کیا ہی نہیں، کبھی ہم نے ان سے کچھ پوچھا بھی نہیں بلکہ شاید ہمیں ان “چھوٹے” لوگوں سے بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔

کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم “جوش ایمان” میں ایک ایک گلی میں تین تین چار چار مساجد بنا دیتے ھیں، انھیں خوب سجا دیتے ہیں لیکن اسی گلی میں کئی غریب رات کو بھوکے سوتے ہیں ان کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیتا، کسی بیمار کے پاس دوائی خریدنے کے لیے پیسے نہی ہوتے اس کی مدد کو کوئی “صاحب ایمان” آگے نہیں آتا، ہم سب کے ارد گرد ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو مجبور ہیں، جو بےکس ہیں، جو غریب ہیں، جن پر ہم کبھی توجہ ہی نہیں دیتے، ان کو اپنے قریب کیجیے، ان کی جو ممکن ہو مدد کیجیے اور جو آپ کے بس میں نہ بھی ہو تو دل جوئی کیجیے ان کی، یہ کام ہم سب کو مل کر کرنا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *