بادشاہ ننگا ہے
کہتے ہیں کہ کسی ملک کے بادشاہ کو منفرد نظر آنے کا خبط تھا۔ اس کے لیے وہ ہر روز کچھ نہ کچھ نرالا کرنے کیلئے تیار رہتا تھا۔
ایک روز اس نے اپنے شاہی درزی کو حکم دیا کہ میں روز روز لباس بدلنے سے تنگ آ چکا ہوں، مجھے کوئی ایسا لباس بنا کر دو جو روزانہ کچھ نیا بن جائے، ایسا لباس جو کسی کے پاس نہ ہو، اور اگر تم ایسا نہ کر سکے تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔
ایسا لباس نہ بننا تھا نہ بنا۔ آخر بادشاہ کا بلاوا آ گیا، درزی نے اپنی زندگی کی آخری بازی کھیلنے کا فیصلہ کر لیا، جان تو ویسے بھی جانا ہی تھی، کچھ چالاکی کر کے آخری کوشش کیوں نہ کی جائے۔ یہی سوچ کر وہ ایک مرصع صندوق لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ لباس تیار ہے، بس حضور یہ احتیاط فرمائیں کہ اسکو غسل کے بعد اکیلے میں زیب تن فرمائیں، ایسا لباس دنیا میں ایک ہی ہے، اسکی خوبیاں بے شمار ہیں۔ آخری خوبی اسکی یہ ہے کہ یہ لباس صرف عقل مند اور دور اندیش بندے کو ہی نظر آئے گا، کسی عقل کے اندھے کو اس لباس کا ایک دھاگہ بھی دکھائی نہ دے گا۔
بادشاہ خوشی خوشی صندوق لے کر غسل کرنے گیا اور جیسا کہ آپ نے جان لیا، جب وہ حمام سے باہر نکل کر لباس پہننے لگا تو صندوق خالی تھا۔ بادشاہ نے سوچا کہ لباس تو موجود ہے، مگر چونکہ وہ خود عقل کا اندھا ہے، اس لیے اسکو نظر نہیں آ رہا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ باہر کیسے جائے۔ خیر رستہ ایک ہی بچا تھا، وہ ننگا ہی کمر پر ایسے ہاتھ رکھ کر ایک بازو پھیلائے ، جیسے وہ لباس کا ایک پلو سنبھالے ہوئے ہے، دربار میں آ نکلا۔
اب دربار میں ہر شخص کو علم تھا کہ آج بادشاہ ایسا لباس پہن کر آنے والا ہے جو صرف عقل مندوں کو نظر آتا ہے۔ بے وقوف کو اس لباس کا دھاگہ تک نظر نہیں آتا۔ سب سے پہلے وزیر اعظم نے اپنی نوکری بچائی، اور واہ واہ کا شور بلند کر دیا، کہ کیا لباس ہے، ایسا لباس کبھی دیکھا نہ سنا، کیا سنہری تاریں ہیں، کیا لاٹیں مارتا دامن ہے، واہ کیا بات ہے۔ جب درباریوں نے ننگے بادشاہ کے بارے میں وزیر اعظم کا یہ بیان سنا تو سب لباس کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے۔
اتنے میں وزیر اعظم نے صلاح دی کہ پوری رعایا کو اس لباس کی زیارت کروانا چاہیے۔ سب درباریوں نے اسکی تائید کی، اور اگلے روز منادی والے ڈھول لیکر شہر کے گلی کونوں میں پھیل گئے اور ڈھول پیٹ پیٹ کر منادی کروا دی کہ ظل سبحانی، بادشاہ سلامت، ایک انوکھے لباس کے ساتھ پورے شہر کا دورہ کریں گے۔ اس لباس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ صرف عقلمند کو نظر آئے گا، بے وقوف کو اس کا ایک دھاگہ بھی نہ دکھ پائے گا۔
اگلے روز کے سورج نے وہ انوکھا لباس تو نہ دیکھا کہ سورج بھی مہا مورکھ تھا، مگر اس نے اپنی زندگی کا انوکھا منظر ضرور دیکھا، کہ ایک بادشاہ الف ننگا گھوڑے پر سوار، ایک ہاتھ ہوا میں ایسے اٹھائے ، جیسے لباس کا پلو پکڑے ہوئے ہے، چلا جا رہا ہے، اور اسکے جلو میں سینکڑوں چاپلوس درباری چلے آرہے ہیں، اور رعایا سڑکوں کے کنارے کھڑی بادشاہ پر پھول برسا رہی ہے۔ ہر کوئی اس ان دیکھے لباس کو دیکھ کر واہ واہ کر رہا ہے۔ کوئی شخص بھی دوسروں کو یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اسے لباس نظر نہیں آ رہا، کیونکہ اسے ڈر ہے کہ اسکو بیوقوف سمجھ لیا جائے گا۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ یہ جلوس ایک کھیل کے میدان کی طرف جا نکلا ، جہاں بچے کھیل رہے تھے۔ وہاں کھیلتے سب سے چھوٹے بچے نے جب یہ ہییت کذائی دیکھی تو چلا اٹھا، ارے دیکھو، بادشاہ ننگا ہے، ارے دیکھو دیکھو، سارے دیکھو، بادشاہ ننگا ہے۔ باقی بچوں نے بھی جب دیکھا تو سب اکٹھے ہو کر چلانے لگے، بادشاہ ننگا، بادشاہ ننگا ۔ ۔ ۔
دوستو! کوئی ہے جو مخلوق خدا کو بتائے کہ “بادشاہ ننگا ہے” ؟؟
Leave a Reply