ایک باپردہ خاتون کا قصہ
ایک گاؤں میں ایک باپردہ خاتون رہتی تھیں، جن کی ڈیمانڈ تھی کہ شادی اس سے کریں گی جو انہیں باپردہ رکھے گا
ایک نوجوان اس شرط پر نکاح کے لیے رضا مند ہوجاتا ہے۔
دونوں کی شادی ہوجاتی ہے ۔ وقت گزرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک بیٹا ہوجاتا ہے ۔
ایک دن شوہر کہتا ہے کہ میں سارا دن کھیتوں میں کام کرتا ہوں ۔ کھانے کے لیے مجھے گھر آنا پڑتا ہے جس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے تم مجھے کھانا کھیتوں میں پہنچا دیا کرو ۔
بیوی راضی ہوجاتی ہے ۔۔
وقت گزرتے گزرتے ایک اور بیٹا ہوجاتا ہے
جس پر شوہر کہتا ہے کہ اب گزارا مشکل ہے تمہیں میرے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹانا پڑے گا۔ یوں وہ باپردگی سے نیم پردے تک پہنچ جاتی ہے۔
اور تیسرے بیٹے کی پیدائش پر اس کا شوہر مکمل بے پردگی تک لے آتا ہے۔
وقت گزرتا رہتا ہے یہاں تک اولاد جوان ہوجاتی ہے۔
ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے شوہر ہسنے لگتا ہے۔
بیوی سبب پوچھتی ہے۔
تو کہتا ہے کہ بڑا تو پردہ پردہ کرتی تھی آخر کار تیرا پردہ ختم ہوگیا ۔۔ کیا فرق پڑا پردے اور بے پردگی کا
زندگی تو اب بھی ویسے ہی گزر رہی ہے
وہ بولتی ہے کہ تم ساتھ والے کمرے میں چھپ جاؤ میں تمہیں پردے اور بے پردگی کا فرق سمجھاتی ہوں۔
شوہر کمرے میں چھپ جاتا ہے۔
عورت اپنے بال بکھیرے رونا پیٹنا شروع کردیتی ہے۔
پہلے بڑا بیٹا آتا ہے ۔ رونے کا سبب پوچھتا ہے۔
کہتی ہے تیرے باپ نے مارا ہے
بڑا بیٹا ماں کو سمجھاتا ہے کہ اگر مارا ہے تو کوئی بات نہیں وہ آپ سے محبت بھی تو کرتے ہیں آپ کا خیال رکھتے ہیں۔
وہ سمجھا بجھا کر چلا جاتا ہے۔
عورت پھر سے رونے کی ایکٹنگ کرتی ہے اور منجھلے بیٹے کو بلا کر بتاتی ہے کہ تیرے باپ نے مجھے مارا۔
منجھلا بیٹا کو غصہ آتا ہے وہ باپ کو برا بھلا کہتے ہوئے ماں کو سمجھا بجھا کر چپ کروا کر چلا جاتا ہے۔
آخر کار عورت یہی ڈرامہ چھوٹے بیٹے کے سامنے کرتی ہے۔
چھوٹا بیٹا تو غصہ سے آگ بگولہ ہوجاتا ہے اور زور زور سے گالیاں بکتے ہوئے ڈنڈا اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ ابھی باپ کی خبر لیتا ہوں۔
پھر عورت شوہر کو بلا کر بولتی ہے
کہ پہلا میرے پردے کے وقت پیدا ہوا
تو اس نے تیرا پردہ رکھا
دوسرا نیم پردے کے زمانے میں پیدا ہوا
تو تیری آدھی لاج رکھ لی۔
جبکہ تیسرا جو مکمل بے پردگی کے زمانے میں ہوا۔ تو وہ مکمل طور پر تیرا عزت کا پردہ اتارنے گیا ہے۔
Leave a Reply