لقمان حکیم اور پھل چور غلام

حضرت لُقمان کے بارے میں مشہور ہے کہ ابتداء میں کسی امیر کے غُلام تھےاور نہایت بدصورت اور بد شکل تھے۔ امیر کے دوسرے غُلاموں میں لُقمان جیسا کوئی بھی نہ تھا۔سبھی اچھی صُورت شکل والے تھے۔وہ ہمیشہ لُقمان کا مذاق اُڑایا کرتے، اپنے حصے کا کام بھی اُن پر لاد دیتے اور امیر سے بے جہ شکایتیں کرتے۔لیکن حضرت لُقمان کبھی شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پر نہ لاتے۔

اگرچہ سر سے پاؤں تک جسم کا رنگ سیاہ تھا، مگر انتہائی دانا اور عقل مند تھے۔دانائی کی ایسی ایسی باتیں کہا کرتے کہ جو سُنتا، حیرت سےدانتوں تلے اُنگلی دبا لیتا۔اس امیر کے پھلوں کے کئی باغ تھے۔درختوں پر پھل پک جاتے تو لُقمان بھی دوسرے غلاموں کے ساتھ پھل توڑنے جایا کرتے ۔بعض اوقات غُلام جتنے بھی پھل جمع کرتے ،اِن میں اکثر خود ہڑپ کر جاتے۔

ایک مرتبہ امیر نے پھلوں کا شمار کیا تو قیاس سے بہت کم نکلے۔غُلاموں سے پُوچھا کہ پھل اتنے کم کیوں ہیں؟ اُنھوں نے لُقمان کا نام لگا دیا کہ یہ غُلام چوری چُھپے پھل کھا جایا ہے۔امیر نے یہ بات سُنی تو لُقمان کو طلب کر کے خُوب ڈانٹا اور بے حدسختی کی ۔آخر لُقمان نے کہا :

“اے آقا ، یہ جُھوٹ بولتے ہیں۔میں نے آج تک امانت میں خیانت نہیں کی۔ خُدا کے ہاں بے ایمان شخص کی بخشش ہی نہیں ۔اب مناسب یہ ہے کہ تو سب کا امتحان لے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب غُلاموں کو گرم پانی پلااور خُود گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل کی طرف چل۔غُلاموں کو حُکم دے کہ گھوڑے کہ ساتھ ساتھ دوڑیں۔خدا نے چاہا تو سب بھید کُھل جائے گا کہ میں سچ کہتا ہوں کہ جُھوٹ۔”

امیر کو لُقمان کی بات پسند آئی۔اُس نے سب غُلاموں کو زبردستی گرم پانی پلایا۔لُقمان نے بھی پیا۔پھر امیر نے اپنا گھوڑا جنگلوں اور سبزہ زاروں میں خُوب دوڑایا۔اِس دور دھوپ کا نتیجہ یہ نِکلا کہ سب غُلام تھک ہار کر لمبے لمبے لیٹ گئے۔اُن کا جی متلایا اور سب نے قے کرکرکے جو کھایا پیا تھا، سب باہر اُگل دیا۔ لُقمان نے جو قے کی، وہ بالکُل صاف تھی اور اُن کے معدوں سے پھلوں کے ٹکڑے برآمد ہوئے۔

یہ دیکھ کر امیر کو لُقمان کی سچائی اور حِکمت پر یقین آیا۔اُس نے غُلاموں کو سرزش کی اور لُقمان کو اُن کا سردار بنا دیا۔ سچ ہے ، جب ایک شخص لُقمان کی حکمت یہ حیرت انگیز کرشمہ دکھا سکتی ہےتو وہ فاعِل حقیقی ، جس کا ہر فعل حکمت ہے۔کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرنے میں کب کسی کا محتاج ہو سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *