قید یا موت
خزاں کی ایک اداس شام تھی اور وہ سرجھکا ئے اپنے کمرے میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک اب تک نہ جانے کتنے چکر کاٹ چکا تھا۔ ایسے میں وہ پندرہ برس پہلے کی اس یادگار اور پرلطف تقریب کی یادیں تازہ کررہا تھا۔ جب اس کی ملاقات شہر کے سب سے مشہور نوجوان وکیل سے ہوئی تھی اور اس کے ساتھ رسمی علیک سلیک کے بعد گفتگو بہت جلد ایک انتہائی دلچسپ بحث میں تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ خود ایک بڑا دولت مند آدمی تھا۔
نوجوان وکیل اس کے ساتھ کاروبار کرنے والی ایک فرم کا قانونی مشیر تھا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اس نے اسے بھی مدعو کر رکھا تھا۔ پیشہ ورانہ ذہانت کے علاوہ اس نوجوان کی شخصیت بے پناہ سحر انگیز تھی، بحث اس بات پر چل نکلی تھی کہ سزائے موت ایک انتہائی ظالمانہ اور قبیح فعل ہے۔ تقریب میں پروفیسر، صحافی، مصنف اور دوسرے دانشور بھی تھے۔ اکثریت کا خیال تھا کہ قرون اولیٰ کی اس یادگار کو بھی ختم کر دینا چاہیے، ہمارا مہذب معاشرہ اتنی بہیمانہ سزا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بعض کا خیال تھا کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دینا چاہیے۔
”میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔“ میزبان یہودی نے بڑے پرجوش انداز سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
”اگرچہ مجھے سزائے موت یا عمر قید سے کبھی واسطہ نہیں پڑا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر کبھی مجھے ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں سزائے موت کو اپنے لیے پسند کروں گا۔ یہ صرف ایک لمحے کی اذیت ہوگی جبکہ عمر قید کا ہر لمحہ پھانسی سے زیادہ اذیت ناک ہوگا۔ میں عمر قید کو سزائے موت کے مقابلے میں زیادہ غیر انسانی سمجھتا ہوں۔ آپ ہی بتائیے جناب! کونسی بات زیادہ بری ہے، اچانک جان سے مار دینا یا سسکا سسکا کر بتدریج ہلاک کرنا؟“
”دونوں ہی غیر انسانی ہیں۔“ ایک مہمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ”کیونکہ دونوں کا مقصد قیمتی انسانی جان کو ختم کرنا ہے۔ ریاست یا حکومت خدا نہیں ہوتی، اگر یہ کسی کو زندگی دے نہیں سکتی تو اسے زندگی واپس لینے کا بھی حق نہیں دیا جا سکتا۔“
”آپ ماہر قانون ہیں۔ آپ کی حتمی رائے کیا ہے؟“ایک شخص نے نوجوان وکیل سے پوچھا ”سزائے موت اور عمر قید دونوں بڑی بھیانک اور غیر انسانی سزائیں ہیں، لیکن اگر مجھے ان میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کہا جائے تو میں معزز میزبان کے برعکس عمر قید کو اپنے لیے پسند کروں گا۔ اس طرح زندگی تو ختم نہیں ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں بالکل نہ رہنے سے کسی نہ کسی حال میں زندہ رہنا بہتر ہے۔“
”ہر گز نہیں، ہرگز نہیں۔“
”یہ درست کہتے ہیں۔ میرا موقف بھی یہی ہے۔“
”بالکل غلط۔ سراسر غلط۔“
بیک وقت کئی آوازوں سے کمرہ گونج اٹھا۔ بحث میں اچانک شدت پیدا ہو گئی تھی۔ نوجوان میزبان جوا ب تک بڑے تحمل سے باتیں کررہا تھا، اچانک جوش میں آگیا اور ہوا میں مکے لہرا لہرا کر کہنے لگا۔
”یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ عمر بھر کی قید کاٹنا آسان نہیں، نوجوان وکیل ایک مہینے کی قید نہیں کاٹ سکتا۔ عمر بھر کی قید کیا کاٹے گا۔“
”میں نے کہاہے اگر مجھے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں عمر قید کو ترجیح دوں گا۔“ وکیل نے کہا۔
”یہ جھوٹ ہے۔ تم قید کے پہلے سال ہی میں چلا اٹھو گے کہ مجھے سزائے موت دے دو۔ مجھے عمر قید نہیں چاہیے۔“
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں ایک سال چھوڑ پندرہ سال تک یہ مطالبہ نہ کروں گا۔“
”یہ بات ہے تو آؤ میں شرط لگاتا ہوں۔ بیس لاکھ ڈالر کی۔“
”بیس لاکھ ڈالر۔“ نوجوان ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔ ”چلو منظور۔“ پھر وہ چلایا۔ ”منظور“
”سب لوگ گواہ رہنا۔“
”ہم سب گواہ ہیں۔“ سب بیک آواز بول پڑے۔
اور یہودی میزبان اور نوجوان وکیل نے آگے بڑھ کر ہاتھ پر ہاتھ مار کر شرط کو قطعی شکل دے دی۔
”میں اپنی زندگی کے پندرہ برسوں کی قید مسلسل قبول کرتا ہوں۔“
”اور میں اس قید مسلسل کی کامیاب تکمیل پر آپ کو بیس لاکھ ڈالر انعام دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔“
اور یوں باتوں ہی باتوں میں بحث اچانک سنجیدہ شکل اختیار کر گئی اور ایک مضحکہ خیز بلکہ وحشیانہ معاہدہ طے پا گیا۔ کچھ دیر بعد کھانے کی میز پر یہودی میزبان نے دعویٰ قبول کرنے والے وکیل سے کہا: ”میرے پاس بے اندازہ دولت ہے، اتنی کہ میں شمار بھی نہیں کر سکتا۔ بیس لاکھ ڈالر میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے لیکن تم اچھی طرح سوچ لو۔ زندگی بھر کی اذیت خرید رہے ہو۔ ایک دفعہ پھر موقع دیتا ہوں، ہوش میں آجاؤ۔“
”میں اپنے الفاظ سے پھرنے والا نہیں۔ یہ بھی ایک انوکھا تجربہ ہی سہی۔“
”میں کہتا ہوں تم اپنی زندگی کے تین چار قیمتی سال یونہی گنوا دو گے۔ تین چا رسال اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ تم اس سے زیادہ مدت جیل میں زندہ نہ رہ سکوگے۔ پاگل ہوجاؤ گے یا قید خانے کی دیواروں سے سر ٹکرا کر جان دے دو گے۔“
”ایسا کبھی نہیں ہوگا، تم اپنے دعوے پر قائم رہو۔“
”میں اپنے دعوے پر قائم ہوں مگر تم شاید زندگی سے تنگ آئے ہوئے ہو۔ خود پر رحم کرو، ترس کھاؤ، یہ مت بھ
Leave a Reply