بادشاہ اور فقیر
بادشاہ عیش و آرام میں مست ہو کر کہہ رہا تھا:
میرے لیے دنیا میں اس وقت سے اچھا اور کوئی وقت نہیں ہے۔ نہ تو اس وقت اچھے بُرے کی فکر ہے نہ کسی کا غم!
محل کے نیچے ایک فقیر سردی میں لیٹا ہوا تھا۔ اس نے بادشاہ کی باتیں سن لیں اور پکار کر کہا!
اے بادشاہ! تیری شان وشوکت کا مقابلہ دنیا میں کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ میں نے مانا کہ تجھ کو کوئی غم نہیں ہے۔ مگر کیا ہمارا غم بھی نہیں ہے (یعنی ہم جیسے ننگے بھوکوں کی بھی فکر نہیں ہے)!
بادشاہ نے فقیر کی باتیں سن لیں۔ اس کے دل پر اثر ہوا۔ ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی نکالی اور کھڑکی سے باہر لٹکا کر کہا۔ اے درویش اپنا دامن پھیلا۔ فقیر نے جواب دیا میرے بدن پر کپڑے ہی نہیں ہیں، دامن کہاں سے لاؤں بادشاہ کو اس کی غریبی پر بہت رحم آیا۔ ایک قیمتی لباس اور اشرفیوں کی تھیلی
اس کے پاس بھیج دی۔ فقیر نے تھوڑے ہی دنوں میں اشرفیاں خرچ کر دیں اور دوبارہ بادشاہ کے پاس آیا۔
نیک دل لوگوں کے ہاتھ میں دولت نہیں ٹھہرتی جس طرح چھلنی میں پانی نہیں ٹھہرتا اور بے چین دل والے کو صبر نہیں آتا ہے۔
بادشاہ کو اس فقیر کا خیال بھی نہیں رہا۔ جب لوگوں نے اس کے دوبارہ آنے کی اطلاع دی اور حال بتایا تو اس کو بہت غصّہ آیا۔ سن کر منہ پھیر لیا۔ عقل مندوں نے کہا ہے کہ بادشاہ کی سختی اور غصّہ سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ اکثر ان کی توجہ سلطنت کے بڑے بڑے کاموں کی طرف ہوتی ہے اس لیے عام لوگوں کی بھیڑ کو پسند نہیں کرسکتے:
اس شخص کے لیے بادشاہ کا انعام حرام ہے جو مناسب وقت اور موقع کا خیال نہ رکھے۔ پہلے سے وقت مقرر کرائے بغیر اس کے پاس جائے اور بے کار باتیں کر کے اپنی عزت گنوائے۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ اس بے ادب اور فضول خرچ کرنے والے کو یہاں سے نکال دو۔ اس نے اتنی بڑی رقم کم مدت میں صرف کر دی۔ شاہی خزانہ مسکینوں اور مفلسوں کے لیے ہے، فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائیوں کے لیے نہیں ہے!
جو بے وقوف دن کی روشنی میں شمع جلاتا ہے اس کو جلدی ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے چراغ میں تیل نہیں رہا یعنی فضول خرچی کی وجہ سے مال جلد ختم ہوجاتا ہے اور اس وقت آدمی کو اپنی بے وقوفی پر ندامت ہوتی ہے!
بادشاہ کے ایک وزیر نے کہا بادشاہ سلامت! ایسے لوگوں کے گزارے کے واسطے تھوڑی رقم بطور وظیفہ مقرر کر دی جائے جو ان کو قسط وار دی جایا کرے تاکہ فضول خرچی نہ کر سکیں۔ لیکن ان کو ڈانٹ کر نکال دینے کا حکم دیا ہے وہ آپ جیسے بلند ہمت بادشاہ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ پہلے تو آپ نے بہت مہربانی کی اور اب وہ امید لے کر دوبارہ آیا ہے اور آپ ناامید کر کے اس کا دل توڑ رہے ہیں۔
پہلے ہی کسی لالچی کو اپنے پاس آنے کا موقع نہ دینا چاہیے تاکہ وہ بار بار پریشان نہ کرے اور جب ایک دفعہ اپنی خوشی سے اس کو آنے دیا تو پھر سختی سے اس کے لیے اپنا دروازہ بند نہ کرنا چاہیے۔
حِجاز (عرب) کے ملک میں پانی کم ہوتا ہے۔ مگر یہ کسی نے نہیں دیکھا کہ وہاں کے پیاسے کبھی سمندر کا کھارا پانی پینے کے لیے جمع ہوئے ہوں۔ اس لیے جہاں کہیں میٹھے پانی کا چشمہ ہوتا ہے وہاں انسان، چڑیاں اور چیونٹیاں سب جمع ہو جاتی ہیں۔ (اسی طرح جو شخص سخی ہوتاہے حاجت مند لوگ اسی کے پاس آتے ہیں)۔
(شیخ سعدی کی’’ گلستان سعدی‘‘ سے اقتباس)
Leave a Reply