ایک تھا شکاری، لیکن، وہ دوسرے شکاریوں کی طرح نہیں تھا۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں کسی جانور کو نہیں مارا تھا
یہ ایک بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے۔ ایک تھا شکاری، لیکن، وہ دوسرے شکاریوں کی طرح نہیں تھا۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں کسی جانور کو نہیں مارا تھا۔ وہ کسی جان دار کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا ہی نہیں سکتا تھا۔ بس اس کے پاس ایک جال تھا اور ایک بانسری، جس پر وہ بہت سریلی دھنیں بجایا کرتا تھا۔ وہ روزانہ جنگل میں جاتا، جال بچھاتا اور جال سے کچھ دور جا کر بانسری بجانے لگتا۔
اس کی بانسری کی دل کش آواز سن کر پرندے اڑے چلے آتے۔ وہ انتظار کرتا
اور جیسے ہی کوئی پرندہ اس کے جال کے پاس آتا، وہ رسی کھینچ کر اسے جال میں بند کر لیتا، پھر وہ اس پرندے کو دانہ کھلاتا، ان کا خیال رکھتا اور ان کی پیاری پیاری آوازیں سنتا۔ جب کبھی اسے پیسوں کی ضرورت پڑتی تو وہ ان میں سے دو تین پرندے بیچ دیتا۔ پرندوں کے اس شکاری کا ایک بیٹا تھا، جس کا نام بہزاد تھا۔ بہزاد ابھی چھوٹا ہی تھا کہ شکاری بیمار پڑا اور اس کا انتقال ہو گیا۔ بہزاد اور اس کی امی کے پاس جو پیسے تھے، وہ جلد ہی ختم ہو گئے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا۔ زندگی بڑی مشکل سے گزرنے لگی۔ بہزاد چھوٹا تھا، مگر بہت ہمت اور صبر والا تھا۔ کام کاج میں اپنی امی کی مدد کرتا اور جو وقت ملتا، اس میں وہ جنگل چلا جاتا، جہاں اس کے ابو پرندے پکڑا کرتے تھے۔ آخر ایک روز اس نے اپنی ماں سے کہا: “امی اب میں بچہ نہیں رہا۔ پندرہ سال کا ہو گیا ہوں۔ ابو کے بعد آپ نے بہت محنت کی ہے۔ اب آپ مجھے ابو کا جال اور بانسری لا دیجئے۔ کل سے میں بھی جنگل جا کر پرندے پکڑا کروں گا۔”
اس کی امی جانتی تھی کہ وہ بڑا بہادر لڑکا ہے اور جنگل کا چپا چپا اس نے دیکھ رکھا ہے، اس لیے انھوں نے اسے بانسری اور جال لا کر دے دیا۔ اگلی صبح بہزاد جلدی اٹھ گیا اور جنگل کو چلا۔ نہ اسے کسی چیز کا ڈر تھا نہ یہ خیال کہ راستہ بھول جاؤں گا، کیوں کہ وہ جنگل کے ایک ایک درخت کو پہچانتا تھا۔ گھنے جنگل میں دور تک نکل گیا اور بانسری بجانے لگا، لیکن پورے دن میں ایک پرندہ بھی اس کے پاس نہ آیا۔ آخر جنگل میں شام کا
اندھیرا پھیلنے لگا تو وہ تھکا ماندہ خالی ہاتھ گھر لوٹ آیا۔ اس کی امی جانتی تھیں کہ یہی ہو گا۔ پرندے پکڑنا اتنا آسان نہیں ہے کہ کوئی ایک ہی دن میں یہ کام سیکھ لے، انھوں نے بیٹے کو تسلی دی اور سمجھایا: “بیٹے! تمھارے ابو بھی فوراً پرندے پکڑنے میں ماہر نہیں ہو گئے تھے۔ ابھی تمھیں اس کام کو سیکھنے میں بہت محنت کرنی پڑے گی۔” بہزاد ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔ اس نے مستقل مزاجی سے یہ کام جاری رکھا۔
آخر آہستہ آہستہ اسے بانسری پر خوبصورت دھنیں بجانا، اپنے آپ کو پرندوں سے چھپانا اور بغیر ہلے جلے صبر سے دیر تک بیٹھنا آ گیا اور پرندے اس کے جل میں پھنسنے لگے۔ ایک دن اس کے جال میں ایک بہت عجیب اور خوب صورت پرندہ پھنس گیا۔ اس کے پر سات رنگوں کے تھے۔ وہ خوشی خوشی گھر آیا اور اس پرندے کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اگلی صبح جب وہ اٹھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پرندے نے ایک خوبصورت انڈا دیا تھا۔ وہ انڈا بھی سات رنگوں کا تھا۔ بہزاد نے سوچا کہ یہ انڈا بازار میں جا کر بیچ دینا چاہیے، تاکہ کچھ پیسے ہاتھ لگیں۔ جب وہ انڈا لے کر بازار پہنچا تو اسے دکان دار نے دیکھ لیا۔۔ یہ دکان دار بہت چالاک اور لالچی تھا۔ اس کا کام ہی غریب لوگوں کو دھوکا دینا اور سستی چیزیں مہنگی بیچنا تھا۔ بہزاد کے پاتھ میں رنگین انڈا دیکھتے ہی اس نے فوراً آواز دی: “اے سنو! کیا یہ انڈا بیچتے ہو؟ میں اسے خریدتا ہوں۔” بہزاد جانتا تھا کہ
وہ دکان دار برا آدمی ہے۔ اس کی چالاکی اور لالچ دیکھ کر بہزاد نے کہا: “ہاں، دس روپے کا ہے!” بہزاد کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چالاک دکاندار نے اس انڈے کی قیمت کم کرانے کی کوشش نہیں کی اور اسے دس روپے دے کر انڈا لے لیا۔ بہزاد نے بازار سے سودا خریدا اور گھر آ گیا۔ اگلی صبح اس نے دیکھا کہ پرندے نے پھر ایک ویسا ہی رنگین انڈا دیا ہے۔ یہ انڈا بھی اس نے اس چالاک دکان دار کو بیچ دیا۔ اس طرح وہ پرندا روزانہ ایک خوبصورت اور رنگین انڈا دیتا اور بہزاد اسے بیچ آتا اور یوں ماں بیٹے مزے سے گزر بسر کرنے لگے۔ ایک دن بہزاد کو خیال آیا کہ یہ چالاک دکان دار اتنا مہنگا انڈا خرید کر کیا کرتا ہے۔ ضرور اسے بہت زیادہ قیمت پر آگے بیچتا ہو گا۔۔ یہ سوچ کر اس نے ایک دن دکان دار کا پیچھا کیا۔ دکان دار انڈا خرید کر محل پہنچا اور بہزاد سمجھ گیا کہ وہ دکان دار اس سے روزانہ انڈا خرید کر بادشاہ کو مہنگے داموں بیچ آتا ہے۔ بہزاد نے سوچا کہ
کیوں نہ میں خود انڈا لے کر بادشاہ کے پاس جاؤں اور زیادہ رقم پاؤں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک انڈے کے سو روپے دیے۔ جب چالاک دکان دار نے دیکھا کہ بہزاد اب اسے انڈے نہیں بیچتا، بلکہ خود محل میں جا کر بادشاہ کو بیچ آتا ہے تو اسے بڑا غصہ آیا۔ بہزاد کو سبق سکھانے کے لیے وہ ایک دن بادشاہ کے پاس گیا اور کہا: “بادشاہ سلامت! آپ بہزاد سے اتنا مہنگا انڈا کیوں خریدتے ہیں؟ یہ انڈے تو آپ کو بالکل مفت میں مل سکتے ہیں۔ بہزاد کے پاس ایک عجیب اور خوب صورت پرندہ ہے، جو یہ انڈے دیتا ہے۔ آپ اس سے یہ پرندہ چھین لیجیئے۔ آپ کے پاس انڈہ اور پرندہ مفت میں ہوں گے۔” بادشاہ نے بہزاد کو حکم دیا کہ پرندہ فوراً لے آؤ۔ بہزاد سمجھ گیا کہ یہ چالاک دکان دار کی شرارت ہے، کیوں کہ بادشاہ اتنا بےوقوف ہے کہ وہ کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ انڈے کہاں سے آتے ہیں، لیکن وہ مجبور تھا، کیوں کہ بادشاہ کا حکم نہ ماننے پر اسے کوئی سخت سزا بھی دے سکتا تھا۔
بہزاد نے اپنا پرندہ بادشاہ کو دے دیا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے اپنی بانسری اور جال اٹھایا اور جنگل کو نکل گیا۔ اس نے ایسی دل کش بانسری بجائی کہ جنگل کے کونے کونے سے پرندے نکل نکل کر اس کے پاس آنے لگے۔ اس کے جال میں کبھی تیتر پھنستا، کبھی فاختہ تو کبھی بلبل۔ ان کو بیچ کر دونوں ماں بیٹے ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔ بہزاد پورے شہر میں مشہور ہو گیا۔ جب کسی کو کوئی پرندہ پالنا ہوتا، وہ بہزاد کے پاس آتا اور اس سے پرندہ خرید کر لے جاتا۔ چالاک دکان دار نے یہ دیکھا تو بہزاد سے کہا: “یہ پرندے تم مجھے بیچا کرو۔” بہزاد سمجھ گیا کہ وہ اس سے پرندے سستے خرید کر لوگوں کو مہنگا بیچے گا، اس لیے اس نے انکار کر دیا۔ چالاک دکان دار کو بہت غصہ آیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس سے کہا: “بادشاہ سلامت! آپ نے جو پرندہ بہزاد سے لیا تھا، وہ اکیلا ہونے کی وجہ سے اداس رہتا ہے۔ آپ بہزاد سے کہیے کہ ایسا ہی ایک اور پرندہ پکڑ لائے، تاکہ آپ کا پرندہ اپنے ساتھی کے ساتھ خوش رہے۔” بادشاہ کی کھوپڑی میں بھوسا بھرا پوا تھا۔ اس سے سوچا کہ
دکان دار ٹھیک کہتا ہے۔ اس سے بہزاد کو بلوایا اور اسے حکم دیا کہ میرے پرندے کا ساتھی، ایسا ہی ایک اور پرندہ پکڑ لاؤ، ورنہ تمھاری خیر نہیں۔ بہزاد نے کچھ کہنے کی کوشش کی، لیکن بادشاہ نے کہا: “میں ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔ میں تمھیں چالیس دن کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر چالیس دن کے اندر اندر تم ایسا ہی ایک اور پرندہ نہ لائے تو تم کو جان سے مار دیا جائے گا۔” بہزاد پریشان تو ہوا، لیکن اس نے حوصلہ رکھا اور بانسری اور جال لے کر جنگل پہنچ گیا۔ اس نے دن رات ایک کر دیا۔ ایسا عجیب و غریب پرندہ کہاں سے ملتا، لیکن اس کی محنت رنگ لائی اور آخر اس کے جال میں ویسا ہی ایک اور پھنس گیا۔ بہزاد نے پرندہ پکڑا اور اسے لے جا کر بادشاہ کو دے دیا۔ بادشاہ نے پرندہ تو لے لیا، لیکن اسے ایک پیسہ بھی نہ دیا۔ بہزاد سمجھ گیا کہ
بادشاہ بھی دکان دار کی طرح ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ چالاک ہے اور یہ بےوقوف۔ بادشاہ تو پرندہ لے کر خوش ہو گیا، لیکن چالاک دکان دار کو بڑا غصہ آیا۔ وہ جانتا تھا کہ بہزاد بہت بہادر، محنتی اور ذہین لڑکا ہے۔ وہ ضرور ایک نہ ایک دن اس سے بدلہ لے گا۔ اس کا خیال تھا کہ بہزاد دوسرا پرندہ نہیں لا سکے گا اور بادشاہ اسے مروا دے گا، لیکن اسے اب بہزاد سے ڈر لگنے لگا کہ کہیں وہ اس کو کسی مصیبت میں نہ ڈال دے، اس لیے اس نے بہزاد کو پھنسانے کی ایک اور ترکیب سوچی۔ وہ بادشاہ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا: “بادشاہ سلامت! آپ کو شاید معلوم نہیں کہ جو پرندے آپ کو بہزاد لا کر دیتا ہے، ان کی جان ایک پھول میں ہے۔” بادشاہ نے پوچھا: “وہ کیسے؟”
دکان دار نے کہا: میں نے بڑے بوڑھوں اور عقل مندوں سے سنا ہے کہ یہ پرندے سال میں ایک بار سمن کا پھول ضرور سونگھتے ہیں۔ اگر یہ پھول ان کو سونگھنے کو نہ ملے تو یہ مر جاتے ہیں اور یہ پھول کالے دیو کے باغ میں اگتے ہیں۔” بادشاہ نے کہا: “لیکن ہمارے پاس یہ پھول کہاں سے آئیں گے؟ کیوں کہ کالا دیو تو اپنے باغ میں کسی کو نہیں آنے دیتا اور کوئی وہاں پہنچ بھی جائے تو وہ اسے مار ڈالتا ہے۔” دکان دار نے کہا: “حضور! یہ کام تو پورے ملک میں ایک ہی لڑکا کر سکتا ہے۔ اس کا نام بہزاد ہے۔ اسے بلا کر کہیے کہ فوراً سمن کا پھول لے کر آئے۔” بادشاہ نے پھر وہی کیا، جو دکان دار نے کہا تھا یعنی بہزاد کو بلوا کر کہا: “کالے دیو کے باغ سے سمن نام کا پھول لے کر آؤ، ورنہ میرے پرندے مر جائیں گے۔” بہزاد نے کہا: “بادشاہ سلامت! میں نے اپنا پرندہ آپ کو دے دیا۔ آپ نے کہا اس کا ساتھی لاؤ، میں نے وہ بھی پکڑ کر لا دیا،
لیکن آپ کا یہ حکم عجیب ہے۔ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ کالے دیو کا باغ کہاں ہے؟” “یہ تم اس دکان دار سے پوچھو۔ اسے سب معلوم ہے۔” بادشاہ نے جواب دیا۔ بہزاد نے کہا: “حضور ! اگر دکان دار اتنا ہی عقل مند ہے اور اسے سب معلوم ہے تو اسی سے کہیے کہ خود سمن کا پھول لے کر آئے۔” بادشاہ نے کہا: “نہیں، دکان دار کہتا ہے کہ صرف تم ہی یہ کام کر سکتے ہو اور اگر میرے پرندے مر گئے تو میں تمھیں اور تمھاری ماں کر مروا دوں گا۔” بہزاد سمجھ گیا کہ اس بےوقوف بادشاہ کو کچھ کہنا، دیوار سے سر پھوڑنا ہے اور یہ ساری شرارت دکان دار ہی کی ہے، اس لیے وہ چپ چاپ گھر واپس آ گیا۔ اس نے دماغ لڑانا شروع کیا کہ کیا کیا جائے۔ اس شہر میں ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ وہ بہت عقل مند تھا۔ بہزاد اس کے پاس گیا اور اسے سب کہہ سنایا اور پوچھا کہ
کیا یہ سچ ہے کہ سمن نامی کوئی ایسا پھول ہے جو کالے دیو کے باغ میں اگتا ہے اور اسے سونگھے بغیر وہ پرندے زندہ نہیں رہ سکتے؟ بوڑھے نے کہا: “ہاں یہ سچ ہے۔ یہ پرندے سال میں ایک دن ضرور یہ پھول سونگھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کہیں دور دراز علاقے میں چلے جائیں تو بھی بہار کے موسم میں اس پھول کے پاس ضرور جاتے ہیں، اس لیے کالا دیو اپنے باغ میں یہ پھول ضرور اگاتا ہے۔ اس طرح یہ عجیب پرندے ہر وقت اس کے باغ میں رہتے ہیں۔” بہزاد نے پوچھا: “اگر میں اس کے باغ سے وہ پھول توڑ لاؤں تو کیا پرندے بھی اس پھول کے پیچھے پیچھے آئیں گے؟” بوڑھے نے کہا: “ہاں بالکل، لیکن اس پھول تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اس باغ کا ایک ہی دروازہ ہے اور اسے کالے دیو کے سوا اور کوئی نہیں کھول سکتا۔” نہزاد نے کہا:
“میں اسے کھول لوں گا۔ بس مجھے آپ اس کا پتا بتا دیجئے۔” بوڑھے نے اسے کالے دیو کے باغ کا پتا بتا دیا اور یہ بھی کہا کہ بڑے بڑے پہلوان اور بہادر لوگ وہاں گئے تھے، لیکن کوئی بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ دیو بہت طاقت ور ہے۔ تم کوشش کرنا کہ کسی طرح چھپ کر رہو۔ اگر وہ تمھیں دیکھ نہ سکا تو تمھاری جیت ہو گی، ورنہ وہ تمھیں مار ڈالے گا۔ بہزاد نے ہر بات اچھی طرح سمجھ لی اور اگلے دن صبح ہی صبح چل پڑا۔ وہ چلتا گیا، چلتا گیا۔ آخر وہ کالے دیو کے باغ تک پہنچ گیا۔ باغ کا ایک ہی دروازہ تھا، جو بہت بڑا تھا اور بری بڑی چٹانوں کا ملا کر بنایا گیا تھا۔ کئی پہلوان مل کر بھی اس ہلا نہیں سکتے تھے۔ وہ دروازے کے قریب بیٹھ گیا، لیکن وہ اتنا تھکا ہوا تھا کہ اسے فوراً نیند آ گئی۔ اس کی آنکھ شور سے کھلی۔ شور ایسا تھا کہ لگتا تھا کہ جیسے آندھی آ رہی ہے۔ شور قریب آتا جا رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ
کالا دیو باغ کے اندر جا رہا ہے۔۔ وہ فوراً چھپ گیا۔ دیو اسے نہ دیکھ سکا اور اس کے قریب سے گزر گیا۔ بہزاد کو ایسا لگا کہ جیسے کوئی پہاڑ اس کے برابر سے گزر کر جا رہا ہے۔ دیو نے باغ کا دروازہ کھولا۔ بہزاد سانس روکے دبے پاؤں اس کے پیچھے پیچھے چلا اور جیسے ہی وہ باغ کے اندر گیا، بہزاد بھی اندر چلا گیا اور فوراً ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا۔ جنگل میں پرندے پکڑنے کے کام میں اسے بہت دیر تک ہلے جلے بغیر چھپ کر رہنا پڑتا تھا، یہ عادت اسے یہاں بہت کام آئی۔ دیو کو پتا بھی نہیں چلا کہ کوئی اس کے پیچھے پیچھے باغ کے اندر آ گیا ہے۔ وہ باغ بہت خوبصورت تھا۔ اس میں عجیب عجیب رنگ کے ایسے پھول تے کہ بہزاد دنگ رہ گیا۔ اس میں ایسے پرندے تھے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ بہزاد رات کو وہیں چھپا رہا۔ صبح کالا دیو پھر باہر آیا۔ شاید وہ شکار کی تلاش میں جا رہا تھا۔ جب دیو چلا گیا تو
بہزاد جھاڑی کے پیچھے سے نکلا اور باغ میں سمن نام کا پھول تلاش کرنے لگا۔ اسے وہاں ویسے ہی پرندے بھی نظر آئے جیسے اس نے بادشاہ کو دیے تھے، لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ سمن کون سا پھول ہے۔ وہاں تو ہر طرح کے پھول تھے۔ باغ میں گھومتے گھومتے اسے ایک بہت بڑا مکان نظر آیا۔ دیو اس میں رہتا تھا۔ بہزاد اس کے اندر چلا گیا۔ اس مکان میں چالیس کمرے تھے۔ ہر کمرا دوسرے سے بڑھ کر خوب صورت تھا، لیکن پورے مکان میں کوئی نہیں تھا۔ آخر جب وہ چالیسویں کمرے میں پہنچا تو اسے کسی کے رونے کی آواز سنائی دی، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اسے لگا کہ آواز قالین کے نیچے سے آ رہی ہے۔ اس نے قالین اٹھایا تو فرش میں ایک دروازہ بنا ہوا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا تو سیڑھیاں زمین کے اندر جا رہی تھیں۔ وہ سیڑھیاں اتر کر اندر چلا گیا۔ نیچے ایک تنگ اور اندھیرا کمرا تھا۔ رونے کی آواز تیز ہو گئی تھی۔ بہزاد نے غور سے دیکھا تو
اندھیرے میں ایک لڑکی نظر آئی، جو ہوا میں لٹکی ہوئی تھی۔ اس کے لمبے لمبے بال چھت میں ایک کنڈے سے بندھے ہوئے تھے اور وہ رو رہی تھی۔ بہزاد کو دیکھ کر بولی: “ارے لڑکے! تم یہاں کیسے آ گئے؟ تم ہو کون؟ فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ اگر کالا دیو آ گیا تو تمھارے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔” بہزاد نے کہا:”تم فکر نہ کرو۔ وہ باہر گیا ہوا ہے۔ یہ بتاؤ تم کون ہو؟” “میرا نام چندا ہے۔ وہ منحوس دیو مجھے کئی سال پہلے اٹھا لایا تھا۔ تب سے میں یہاں قید ہوں۔” بہزاد نے اس کے بال کھول کر اسے نیچے اتارا۔ اس نے پر پوچھا:”تم کون ہو اور یہاں کیوں اور کیسے آئے ہو؟” بہزاد نے پوری بات بتائی کہ وہ کس طرح سمن کے پھول کی تلاش میں آیا ہے اور اگر پھول نہ ملا تو بادشاہ اس کی ماں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چندا نے کہا: “سمن نام کا پھول سب سے پہلے میں نے اگایا تھا۔ اگر تم مجھے یہاں سے نکال کر لے جاؤ تو میں تمھیں سمن اگا کر دوں گئ۔
پھر سارے پرندے تمھارے پاس آیا کریں گے۔” اس نے بتایا کہ کالا دیو کے اصطبل میں تیز گھوڑے بھی ہیں۔ بہزاد اصطبل گیا اور اس نے دو گھوڑے کھول لیے۔ دونوں ان پر سوار ہو گئے۔ چندا کو معلوم تھا کہ باغ میں ایک پتھر کو دبانے سے باغ کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس طرح دونوں دروازہ کھول کر گھوڑوں پر سوار وہاں سے نکل بھاگے۔ گھوڑے بھگاتے بھگاتے دونوں بہزاد کے شہر پہنچ گئے۔ بہزاد کی ماں دونوں کو دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ دونوں کو گلے لگایا، کھانا کھلایا، پھر پوچھا:”یہ بتاؤ! جو پھول تم لینے گئے تھے، وہ ملا بھی یا نہیں؟” بہزاد نے پوچھا: “امی! جب میں گیا تھا تو میں نے آپ کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ پھر آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں پھول لینے گیا تھا؟” امی نے بتایا: “بادشاہ کے سپاہی روز آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ
بہزاد پھول لے کر آیا کہ نہیں۔” اتنے میں بادشاہ کے سپاہی آ گئے اور پوچھا : تم پھول لائے یا نہیں؟” اس سے پہلے کہ وہ جواب میں کچھ کہتا، چندا نے کہا: “ہاں لے آیا ہے۔ تھوڑی دیر میں خود بادشاہ کے پاس پھول لے کر جائے گا۔” بادشاہ کے سپاہی چلے گئے تو چندا نے چاقو لے کر اپنی انگلی میں چیرا لگایا۔ خون کے دو قطرے نکلے اور نکل کر پھول بن گئے۔ چندا نے کہا: “دیو کو معلوم تھا کہ میں اس طرح سمن کے پھول بنا سکتی ہوں، اس لیے وہ مجھے قید رکھتا تھا۔ اب یہ پھول بادشاہ کے پاس لے جاؤ۔” جب وہ پھول لے کر بادشاہ کے پاس پہنچا تو پرندے اداس تھے، انھوں نے چہچہانا بند کر دیا تھا۔ پھول دیکھتے ہی پرندوں میں جیسے جان پڑ گئی۔ وہ پھر سے بولنے لگے۔ بادشاہ خوش ہو گیا۔ لیکن چالاک دکان دار یہ دیکھ کر جل گیا کہ بہزاد پھر کامیاب ہو گیا۔ اس نے بادشاہ سے کہا: “بادشاہ سلامت! یہ پھول تو مرجھا جائیں گ
Leave a Reply