بہادری

چاکر بلوچ بہت ماہر تیر انداز تھا۔وہ منصور الملک کی فوج میں معمولی سپاہی بھرتی ہوا تھا مگر اس کی تیر اندازی اس کے کام آئی اور جلد ہی اسے پچاس تیر اندازوں کا امیر بنا دیا گیا۔وہ بہت تند ہی سے سرحد پر اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ کھبی کبھار چھٹی مل جاتی

تو گھر بھی چلا جاتا۔اس کا خواب تھا وہ ایک ہزار ی کمان دار بنے ۔اس کی کمان میں ایک ہزار تیر انداز سپاہی ہوں ۔ایک روز اسے خط کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ اس کے والد کی طبیعت بہت خراب ہے ۔یہ پڑھ کر اس نے فوراً گھر کی راہ لی۔ اسے کچھ دن ہی ان کی خدمت کا موقع ملا تب موت نے انہیں آلیا۔اب گھر میں کمزور بوڑھی ماں رہ گئی تھی ۔ایک جانب اس کا خواب تھا دوسری جانب کمزور بوڑھی ماں فیصلہ کرنے میں اسے ایک لمحہ بھی نہیں لگا۔اس نے فوج کو خیر باد کہہ دیا اور کھیتی باڑی کرنے لگا۔ ماں نے ایک لڑکی پسند کی اور چاکر بلوچ کی شادی ہو گئی ۔زندگی خاموشی سے آگے بڑھ رہی تھی جب منصور الملک کے ہاں دس سال بعد بیٹا پیدا ہوا ملک بھر میں جشن کا سماں تھا۔کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔ان دنوں چاکر بلوچ کو بھی کچھ فراغت تھی تو ایک مرتبہ پھر تیر کمان اٹھانے کا خیال دل میں پیدا ہوا۔ گاؤں والوں کا بھی خیال تھا کہ اسے ان مقابلوں میں حصہ لینا چاہیے ۔کچھ مشق کے بعد اس کا تیر عین نشانے پر لگنے لگا۔ گاؤں والے اس کی مہارت دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔تیر اندازی کے مقابلے میں جب وہ تیسرے مرحلے میں داخل ہوا تو ہر طرف اس کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اس دن گھر جاتے ہوئے میر طاہر نے چند محافظوں کے ہمراہ اس کا راستہ روک لیا۔وہ اس علاقے کا داروغہ تھا۔”چاکر بلوچ، تمہارا نشانہ بہت سچا ہے۔“گھوڑے سے اترتے ہوئے میر

طاہر بولا۔ چاکر جانتا تھا کہ میرطاہر نے اسے کسی خاص وجہ سے روکا ہے ۔ کسی راہ چلتے کی تعریف میر طاہر کی عادت نہیں تھی۔ صاحب!وہ بات کہیے جس کے لئے مجھے آپ نے روکا ہے ۔چاکر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ میر طاہر کی مسکراہٹ غائب ہو گئی ۔اب اس کے چہرے پر رعونت دکھائی دے رہی تھی ۔ اس نے ایک ریشمی تھیلی نکال کر حقارت سے اس کی جانب بڑھائی ۔ ”چاکر! یہ اس انعام سے بہت زیادہ ہے جو مقابلہ جیتنے کی صورت میں تمھیں ملے گا۔یہ رکھ لو اور اس مقابلے سے دستبردار ہو جاؤ۔“ اگر میں انکار کردوں؟۔چاکر نے طنزیہ لہجے میں سوال کیا۔ اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہو سکتاہے ۔میر طاہر نے سرد لہجے میں دھمکایا۔ میں تمہاری پیشکش ٹھکراتاہوں ۔چاکر بلوچ نے بے خوف ہو کر کہا۔ میر طاہر اسے کچھ دیر غضب ناک نگاہوں سے گھورتا رہا پھر چابک لہراتا وہاں سے چل دیا۔ مقابلے کا دن آپہنچا اور جب اس نے مد مقابل کو دیکھا تو اس کی سمجھ میں ساری بات آگئی ۔میر طاہر کا بھانجا اور پچاس ہزاری سالار میر قاسم کا بیٹا اس کے سامنے کھڑا تھا۔چاکر جیسے ماہر تیر انداز کے سامنے اس کی ایک نہ چلی وہ یہ مقابلہ ہار گیا۔ اس جیت پر پچاس ہزار سالا ر میر قاسم نے چاکر کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا”ہر باپ کی طرح میری خواہش تھی کہ یہ مقابلہ میرا بیٹا جیتے مگر کچھ صلاحیتیں خدا داد ہوتی ہیں ۔چاکر کے پاس وہ خوبی ہے جس کی بدولت اس کا نشانہ چوکتا نہیں ۔ میں نے اپنے بیٹے سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ یہ مقابلہ جیت گیا تو اسے بیش قیمت تحفہ دوں گا۔چاکر بلوچ نے مجھے بہت متاثر کیاہے۔انعام کے ساتھ یہ اس تحفے کا بھی حقدار ہے۔ میر قاسم کا یہ اعلان سن کر گاؤں والوں نے خوشی سے چاکر کو کندھوں پر اُٹھالیا۔ سب اس تحفے کو دیکھنے کے لئے بیتاب تھے۔تحفہ دیکھ کر سب

کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ ایک دیو قامت افریقی ہاتھی تھا۔امید ہے آپ ہمارے تحفے کی قدر کریں گے اور اس کی خوراک کی فکر نہ کرنا سالانہ تمھیں اس کا خرچ مل جائے گا۔ میر قاسم نے چاکر بلوچ سے مصافحہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا تاکہ سب سن لیں۔ چاکر کسی صورت وہ تحفہ قبول کرنا نہیں چاہتا تھامگر میر قاسم کی دشمنی مول لینے کی سکت اس میں نہ تھی ۔اس لئے کسی نہ کسی طرح وہ ہاتھی کو گاؤں لے آیا۔ ایک اجاڑ کھیت میں اس کا عارضی ٹھکانہ بنا دیا۔اگلے دن چند سپاہی وہاں آدھمکے اور ہاتھی کی خوراک کے بارے میں چاکر سے سوال کرنے لگے ۔اس کے بعد انہوں نے چاکر کے کھیت میں گھس کر محنت سے اگائی گئیں سبزیاں اکٹھی کیں اور ہاتھی کے سامنے ڈھیر کردیں ۔ ایک کاغذ پر ان کی تفصیل لکھی اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ سال پورا ہونے پر اسے رقم ادا کر دی جائے گی۔وہ روز یہی کرتے ۔چاکر کے سارے کھیت برباد کر دیے گئے ۔وہ اسے تنگ کرنے کے لئے کبھی کہتے ہاتھی کمزور لگ رہا ہے اس کے لئے مزید خوراک کا انتظام کرو۔ کبھی کہتے صاف نہیں اسے نہلانے کا بندوبست کرو۔چاکر اور اس کے گھر والوں کا سکون غارت ہو کر رہ گیا تھا۔ہاتھی چاکر کے علاوہ کسی کو قریب آنے نہیں دیتا تھا۔اس لئے صفائی بھی اسے کرنی پڑتی ۔زندگی بہت مشکل ہو گئی تھی ۔سارے کام چھوڑ کر وہ ہاتھی کی خدمت میں لگا ہوا تھا۔ وہ اس بات کی اکثر اپنی ماں سے شکایت کرتا تو وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دیتی اور اسے بتاتی کہ صبر اختیار کرنے سے زحمت رحمت بن جاتی ہے۔ دوسری طرف اس کی حالت کا سن کر میر طاہر قہقہے لگاتا اور اپنے بہنوئی میر قاسم کی چالبازی کو سراہتا۔ ان دنوں میر طاہر کسی کام سے مرکز چلا گیا۔دو ڈھائی ماہ بعد میر قاسم کی دلچسپی بھی کم ہو گئی تو سپاہیوں نے آنا بھی کم کر دیا۔ چاکر اور ہاتھی ایک

دوسرے سے مانوس ہو گئے تھے ۔ہاتھی جس کا نام اس نے سادھو رکھا ہوا تھا،ساری رات وہ ایک ہی حالت میں سر جھکائے گزار دیتا۔ سادھو اس کے اشارے سمجھنے لگا تھا۔چاکر نے سواری بھی سیکھ لی تھی ۔وہ جب سادھو پر سوار ہوتا تو اسے بہت لطف ملتا۔سادھو کو پانی میں اچھل کود پسند تھی ۔چاکر ہر دوسرے روز اسے جھیل کی جانب لے جاتا۔کبھی کبھی وہ اس پر سوار ہو کر جنگل میں دور تک چلا جاتا۔ وہ وہاں سے شہد اکٹھا کرتا انواع اقسام کے پھل توڑ لاتا۔ایک مرتبہ شہد اتارتے ہوئے جب مکھیوں نے ان پر حملہ بول دیا تو تب اسے معلوم ہواکہ سادھو بھاگتا بہت تیز ہے۔یوں وہ اسے دوڑانے بھی لگا۔ان دنوں وہ اس پر کھڑے ہو کر سواری کرنا سیکھ رہا تھا۔ ایک رات سپاہی آئے اور اسے بتایا کہ منگولوں نے سرحد پر حملہ کر دیاہے ۔سالار پچاس ہزاری میر قاسم کے حکم سے وہ ہاتھی واپس لے جارہے ہیں۔ صبح فجر تک انہوں نے ہر جتن کرلیا مگر سادھو سر جھکائے وہیں کھڑا رہا۔سورج نکلتے ہی میر طاہر دو سو سپاہی لے کرپہنچ گیا۔ آہنی زنجیروں سے سادھو کو جکڑ دیا گیا۔سب مل کر زور لگا رہے تھے ۔اتنے میں کسی سپاہی نے نیزے کی انی سادھو کے پاؤں میں ماری ۔سادھو بپھر گیا۔چنگھاڑتے ہوئے پچھلے پاؤں پر کھڑا ہوا پھرایک جھٹکے سے بھاگ کھڑا ہوا۔سپاہی اس کے ساتھ گھسٹتے چلے گئے ۔ اس کا رخ جنگل کی جانب تھا۔بادشاہ منصور الملک نے اپنے تمام پچاس ہزاری سالاروں کو مشرقی سرحد پر پہنچنے کا حکم دیاتھا۔میر قاسم نے اس مہم پر جانے کے لئے سادھو کو واپس بلوایا تھا۔رواج تھا کہ جنگ کے دوران پچاس ہزاری سالار ہاتھیوں پر سوار رہتے تھے ۔ میر قاسم کے پاس جو سب سے بڑا ہاتھی تھا وہ سادھو ہی تھا ۔وہ کسی چھوٹے ہاتھی پر بیٹھ کر بادشاہ کے سامنے جانے میں شرم محسوس کررہا تھا۔دس دن گزر گئے سپاہی سادھو کو نہ پکڑ سکے ۔ ایک شام میر قاسم خود چاکر کے گھر پہنچ گیا۔اسے کہا سادھو کو لے کر سرحد کی جانب چلے دوسری صورت میں اس کی ساری زمین ضبط کرلی جائے گی اور اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ چاکر کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ بے بس تھا۔ ایک مہینے بعد وہ سرحد پر منگولوں کے لشکر کے سامنے موجود تھا۔چاکر میر قاسم کے فیل بان کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔میر قاسم نے بہت کوشش کہ سادھو کسی اور فیل بان کو قبول کر لے مگر وہ بگڑ جاتا۔ جنگ شروع ہو چکی تھی ۔منگول تا بڑ توڑ حملے کر رہے تھے ۔منصور الملک کا لشکر ان حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پسپا ہورہا تھا۔میر قاسم اس وقت ایک او نچے ٹیلے موجود تھا اور میدان جنگ کا منظر دیکھ رہا تھا۔ہوا کا رخ

پہچان کر میر قاسم نے چاکر کو حکم دیاکہ ہاتھی کو خیموں کی طرف لے جائے ۔ ایساکرنا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔میر قاسم کو میدان جنگ سے جاتا دیکھ کر اس کے سپاہی حوصلہ ہار دیتے اور بھاگ کھڑے ہوتے ۔منگول اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اس طرف سے حملہ آور ہو جاتے ۔سارے لشکر میں افراتفری پھیل جاتی تب انہیں شکست سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔ وہ ہاتھی چاکر کا تھا اور چاکر میر قاسم کا سپاہی بھی نہیں تھا کہ اس کا حکم مانتا۔اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔میر قاسم نے اسے اپنے پاس رتھ میں آنے کو کہا ۔ان دونوں کے درمیان کوئی بات ہوئی ۔ تھوڑی دیر بعد سپاہیوں نے دیکھا کہ رتھ کو ہاتھی سے علیحدہ کر دیا گیا۔ فیل بان کو نیچے اتار کر ان کا سالار تیر کمان سنبھالنے خود ہاتھی پر بیٹھ گیا۔اس کے بعد ہاتھی چنگھاڑتا ہوا ٹیلے سے نیچے اترا اور غضب ناک انداز میں منگولوں کی جانب بڑھا۔وہ دشمن کو روندتا ہوا بہت دور تک نکل گیا۔منگولوں نے ہاتھی کو گھیر لیا تھا اور نیزے اور تلواروں سے اس پر حملہ آور ہو رہے تھے ۔ ان کا سالار ہاتھی پر کھڑا ہو کر ان پر تیر برسا رہا تھا۔سپاہیوں نے جب یہ منظر دیکھا ۔تو نعرہ تکبر بلند کرتے ہوئے پر جوش انداز میں اپنے سالار کی مدد کو لپکے ۔منصور الملک جو اپنی فوج کو پسپا ہوتے دیکھ کر مایوس

ہو چکا تھا یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسے میر قاسم سے اس بات کی کم از کم توقع نہیں تھی ۔دوسرے سالاروں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو وہ بھی میدان جنگ کی طرف دوڑے ۔اب تمام لشکر میں ایک توانائی دوڑ گئی ۔وہ پوری قوت سے منگولوں سے جا ٹکرائے ۔گھمسان کارن پڑا۔منگولوں کے قدم اکھڑے گئے ۔ جلد ہی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ سادھو زخموں سے نڈھال تھا ۔اس پر موجود چاکر بلوچ کی حالت بھی بہت خستہ تھی ۔تیر چلاچلا کر اس کے دونوں بازو شل ہو گئے تھے انگلیوں سے خون رس رہا تھا۔اس نے میر قاسم کی وردی پہن رکھی تھی ۔میر قاسم انتہائی بزدل واقع ہوا تھا۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ چاکر واپس جانے کے لئے تیار نہیں تو اسے اپنی وردی دے کر اس کی قمیض اور پگڑی خود پہن لی اور وہاں سے فرار ہو گیا۔ جنگ ختم ہو چکی تھی ۔وہ بہت مشکل سے سادھوپر سے اترا۔دو سپاہیوں نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔ سادھو جیسے اس کے اترنے کا منتظر تھا پاؤں موڑ کر بیٹھا اور چند لمحوں بعد ایک طرف ڈھے گیا۔چاکر نے جب یہ منظر دیکھا تو والہانہ سادھو کی جانب بڑھا۔سادھو کی آنکھیں بند تھیں ۔چاکر بچوں کی طرح اس سے لپٹ کا رو رہا تھا۔یہ منظر دیکھ رہ آنکھ اشک بار تھی۔ چاکر بلوچ اس وقت منصور الملک کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔منصور الملک کو پہلے ہی شک تھا کہ ہاتھی پر کھڑے ہو کر تیر چلا نے والا میر قاسم نہیں ہو سکتا۔میر قاسم کومیدان جنگ سے بھاگنے کے جرم میں جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔منصور الملک چاکر کی بہادری سے حد درجے متاثر ہوا اور اسے پچاس ہزاری سالار مقرر کر دیا۔سادھو زحمت بن کے آیا تھا مگر اس سمیت پورے ملک کے لئے رحمت بن گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *