تیس ہزار درہم
ابو نصر العیاد نامی ایک شخص اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ غربت وافلاس کی زندگی بسر کررہا تھا۔ایک دن وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین سے ہوا جس کا نام
احمد بن مسکین تھا۔ عالم دین کو دیکھتے ہی ابو نصر نے
کہا کہ اے شیخ میں دکھوں کا مارا ہوا غموں سے تھک گیا ہوں۔عالم دین نے کہا کہ میرے پیچھے چل آؤ ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔ سمندر پر پہنچ کر عالم دین نے اسے دورکعت نفل پڑھنے کو کہا نماز پڑھ چکا تو اس نے ایک جال دیتے ہوئے کہا کہ اسے بسم اللہ کرکے سمندر میں پھینک دو ۔ پھینکے گئے جال میں پہلی بار ایک بڑی مچھلی پھنس گئی جال کو باہر نکالا گیا عالم دین نے کہا کہ جاؤ اس مچھلی کو بازار میں فروخت کرو اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے اپنے اہل خانہ کے لئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر لے جاؤ۔ ابو نصر سے شہر میں جا کر مچھلی فروخت کی اور حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا عالم دین کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کرو۔عالم دین نے کہا کہ تم نے اپنے کھانے کے لئے جال پھینکا تھا قدرت نے تمہیں مچھلی دے دی میں نے تمہاری نیکی اپنی بھلائی کے لئے کی تھی ۔ اس لئے یہ پراٹھے تم اپنے گھر لے جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔ ابو نصر اپنے پراٹھے لیے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں بھوکوں سے ماری ایک عورت روتے دیکھا جس کے پاس اس کا بیٹا بھی تھا۔ابو نصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے دونوں پراٹھے دیکھے اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے معاملہ تو
ایک جیسا ہی ہے ۔ وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔یہ دونوں پراٹھے کس کو دوں۔عورت کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کی طرف دیکھا تو اس نے اپنا سر جھکا دیا اور پراٹھے بھوکی عورت کی طرف بڑھا دئیے اور بولا خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی کھلاؤ عورت کے چہرے پر خوشی اور اس کے بھوکے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن ابو نصر غمگین دل کے ساتھ واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا کہ اپنے بھوکے بچوں اور بیوی کا سامنا کیسے کرے گا ۔ گھر جاتے ہوئے اس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ کوئی ہے جو اسے ابو نصر سے ملا دے ۔لوگوں نے منادی والے سے کہا کہ یہ دیکھو یہی ابو نصر ہے منادی والے نے کہا کہ آج سے 20سال قبل تیرے باپ نے 30ہزار درہم امانت رکھے تھے ۔ جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں تمہیں تلاش کر رہا ہوں آج میں نے تمہیں پا لیا ہے تو یہ 30ہزار درہم تیسرے باپ کا مال ہے لے لو۔ابو نصر کا کہنا تھا وہ بیٹھے بٹھائے امیر ہو گیا تھا۔ اس کے کئی گھر بنے تجارت پھیلتی گئی اس نے کبھی بھی اللہ کی راہ میں دینے میں کنجوسی سے کام نہیں لیا ۔ ایک ہی بار میں ایک ایک ہزار درہم فراخدلی سے صدقہ اور خیرات کرنے والا بن گیا ۔ایک بار اس نے خواب میں دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے میدان میں ترازو نصب ہے منادی کرنے والے نے آواز دی کہ اب ابو نصر کو لایا جائے اور اس کے گناہ وثواب کو تولا جائے ابو نصر کہتا ہے کہ ایک پلڑے میں میری نیکیاں اور دوسرے پلڑے میں میرے گناہوں کو رکھا گیا تو گناہوں والا پلڑا بھاری تھا میں نے پوچھا کہ میرے صدقات وخیرات کہاں گئے جو میں نے اللہ کی راہ میں دئیے تھے تو سننے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دئیے ۔ ہر ہزار درہم کے صدقے کے نیچے خواہشات اور ریا کاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا ان صدقات کو روٹی سے بھی زیادہ ہلکا پایا میرے گناہوں کا
پلڑا اب بھی بھاری تھا میں روپڑا اور کہنے لگا ہائے رب میری نجات کیسے ہو گی ۔منادی والے نے میری بات کو سنا تو اس نے کہا کہ اس کا کوئی اور عمل ہے تو اسے بھی لے آؤ۔ میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ کہہ رہا تھا کہ ہاں اس کے دئیے ہوئے دو پراٹھے ہیں ۔جو ابھی تک میزان میں نہیں آئے دونوں پراٹھے ترازو کے نیکی والے پلڑے میں ڈالے گئے تو نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا لیکن تھوڑا سا بھاری تھا عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جس کے پہاڑ جیسے وزن سے نیکیوں کا پلڑا مزید بھاری ہو گیا ۔ منادی والے نے پوچھا کوئی اور عمل بھی اس کا باقی ہے تو فرشتے نے کہا کہ ہاں ابھی اس بھوکے بچے کی مسکراہٹ ہے اسے اس پلڑے میں ڈالا گیا تو نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا ۔منادی کرنے والا بول اٹھا کہ یہ شخص نجات پا گیا ۔ ابو نصر کہتاہے کہ میں جب نیند سے بیدار ہوا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اے ابو نصر تجھے تیرے بڑے بڑے علاقوں نے نہیں بلکہ آج تجھے تیرے دو پراٹھوں نے بچایا ہے ۔ پیارے بچو!اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ کسی بڑی نیکی پر مغرور نہیں ہونا چاہئے اور کسی بھی چھوٹی نیکی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے ۔ ایک اور بات کا دھیان رکھیں کہ نمائش کا جذبہ فطرت انسانی کا ایک لازمہ بن کر رہ گیا ہے اب ہماری نیکیاں اور خوبیاں بھی لا شعوری طور پر ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتی جب ہم بڑی خوبصورتی اور فخر وانسباط کے ساتھ دوسروں پر اس کا اظہار کر سکیں یاد رکھیں کہ ظاہری نام ونمود اور دنیاوی شہرت کی حرص انسان کی نیکیوں کو درجات سے محروم کر دیتی ہیں۔
Leave a Reply