ایک آدمی کو اللہ نے اتنی زرعی زمین دی تھی
ایک آدمی کو اللہ نے اتنی زرعی زمین دی تھی کہ تین ریلوے اسٹیشن اس کی زمین میں بنے ہوئے تھے۔ یعنی پہلا ریلوے اسٹیشن بھی اس کی زمین میں، دوسرا بھی اس کی زمین میں اور تیسرا بھی اس کی زمین میں تھا۔ اتنی جاگیر کا مالک کروڑوں پتی بندہ تھا۔ ایک مرتبہ دوستوں کے ساتھ شہر کے مرکزی چوک میں کھڑا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ دوستوں نے کہا کہ کاروبار کی کچھ پریشانیاں ہیں۔ وہ ذرا موڈ میں آ کے کہنے لگا۔ او! بھوکے ننگو، تمہارے پلے ہے ہی کیا۔ کبھی کبھی جب پیٹ بھر کر کھانے
بھر کر کھانے کو مل جاتا ہے۔نا تو بندہ خدا کے لہجے میں بولنا شروع کر دیتا ہے۔ اس نے دوستوں کو کہا کہ تم پریشان رہتے ہو کہ آئے گا کہاں سے اور میں تو پریشان پھرتا ہوں کہ لگاؤں گا کہاں پہ۔ بس یہ عجب کا بول اللہ تعالیٰ کو نا پسند آ گیا۔ بیمار ہو گیا اور چند مہینوں کے بعدخود تو دنیا سے رخصت ہوا اور ایک بیٹا پیچھے چھوڑ گیا۔ جوان العمر بیٹا جب سر پر باپ نہیں اور کروڑوں کا سرمایہ ہاتھ میں ہے تو پھر اس کے کئی الٹے سیدھے دوست بن گئے۔ اس کو انہوں نے شراب اور شباب والے کاموں میں لگا دیا۔ اب جوانی بھی لٹ رہی ہے۔ مال بھی لٹا رہے ہیں۔ وہ اپنی مستیاں اڑا رہا ہے کسی نے اس کو یہاں سے لاہور کا راستہ دکھا دیا۔ پھر کسی نے لاہور سے کراچی کا راستہ دکھا دیا۔کسی نے اس کو جوئے کا راستہ دکھا دیا۔ کسی نے کہا کہ کیا تم پاکستان میں پڑے ہو چلو باہر کسی ملک میں چلتے ہیں۔
اس نے اسے بنکاک کا راستہ دکھا دیا۔ پانی کی طرح اس نے پیسہ بہایا اور جوئے میں پھر کروڑوں ہارے۔ حتیٰ کہ جتنا بینک میں تھا سارا لگ گیا۔ زمینیں بکنا شروع ہو گئیں۔ آہستہ آہستہ ایک ایک مربع زمین بکتی گئی اور وہ لگاتا گیا۔ ایک وہ وقت آیا جب ساری زمینیں بک گئیں۔ پھر وہ وقت آیا کہ وہ نوجوان جس گھر میں رہتا تھا۔اس کو وہ گھر بھی بیچنا پڑا۔ اب اس کے پاس اپنا گھر نہیں تھا۔ کھانے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ جس جگہ پر اس کے باپ نے بڑا بول بولا تھا، اس کا بیٹا اسی جگہ پر آ کر کھڑا ہوتا اور لوگوں سے بھیک مانگا کرتا تھا۔ اللہ اکبر۔
Leave a Reply