پسندیدہ یہ پھل استعمال کریں

نبی کریمﷺ تربوز‘ کھجور کے ساتھ کھایا کرتے تھے، اس کو ترمذی ابودائود نے بیان کیا کہ آپ فرماتے تھے کھجور کی گرمی تربوز کی سردی سے ختم کی جائے گی اور اس کی سردی کھجور کی گرمی سے ختم کی جاتی ہے، تربوز کا مزاج سرد تر ہے، یہ

مقوی اعصاب، دماغ اور قلبہے، حکماء جانتے ہیں صفراء گرمی کا علاج سرد تر سے گرم تر ہے۔اعصاب دماغ کو محرک کر کے صفراء کا اخراج کرنا ہی درست علاج ہے، لہذا تربوز دماغ و اعصاب کو محرک کرتا ہے، کھجور کی کیفیت گرم تر ہےیہ جگر کی پیدا کردہ رطوبت صفرا (گرمی) کو پیدا بھی کرتی ہے اور خارج بھی کرتی ہے جب تربوز اور کھجور کو ملا کر کھایا جائے گا تو یہ شدید پیشاب آور دواء کی صورت میں کام کرے گا اور جسم میں رکے ہوئے میں رکے ہوئے مواد کو خارج کرے گا،پیشاب کے ذریعے اور پاخانے کے ذریعے یہ دونوں غذا مشینی تحریک پیدا کرنے والی غذا ہیں، ان کا کام جسم سے فاضل حرارت جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہے اس کو خارج کرنا اور صفراوی علامتوں کو بھی دفع کرنا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق انسان اپنے ماضی حال اور مستقبل سے اسی طرح جڑا ہوا ہے جیسے اس کا بچپن ‘شباب اور بڑھاپا اس سے جڑا ہوا ہے‘ اگر ان سے بے پروا ہو کر کوئی انسان اپنے لیے ترقی اور بہتری کی راہ متعین نہیں کر سکتا تو

اپنی تاریخ کو جانے بغیر اور اس سے عبرت اور سبق حاصل کیے بغیر کوئی بھی اپنی ترقی کی راہیں نہیں پاسکتا بعض مسلمان اہل علم کا یہ رحجان ہے کہ مہاتما بدھ پیغمبر تھے ان کی غلط فہمی کی پہلی وجہ یہ ہے کہ کئی بدھ نجومیوں نے برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی حکومت کے قیام کی پیشین گوئی کی تھی لیکن یہ پیشین گوئی ہندو نجومیوں نے بھی کر رکھی تھی۔ نجومی او ر کاہن اپنے خاص فن کی وجہ سے مستقبل میں پیش آنے والے کچھ واقعات کی سن گن لے لیا کرتے تھے کیونکہ ان کاہنوں کو جنات سے رابطے کا فن آتا تھا اور جنات کے متعلق قرآن مجید نے سورہ جن کی آیات آٹھ اور نو میں بتایا ہے کہ وہ آسمان پر ایسی جگہوں پر چلے جاتے تھے جہاں وہ فرشتوں سے کچھ سن گن لے لیں لیکن قرآن مجید کے نزول کے دوران اللہ تعالیٰ آسمانوں پر پہرے لگا دیئے تھے۔ یہی حقیقت ان اقوال کی ہو سکتی ہے جن میں ’’آخری بدھا‘‘ یعنی خاتم النبین کی آمد کی بات کی گئی ہے جو مہاتما بد ھ سے منسوب کی جاتی ہے۔دوسری غلط فہمی یہ پیدا کی جاتی ہے کہ قرآن مجید میں ذوالکفل نامی ایک نبی کا نام آیا ہے۔ اب اس ذوالکفل کو ’’ کپل دستو‘‘ قرار دے کر کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید نے ان کی جائے پیدائش کا نام لے کر انہی کاذکر کیا ہے۔ اول تو کپل دستو کو ذوالکفل قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں دی جاتی دوسرا یہ کہ کسی آسمانی صحیفے یا تاریخی مآخذ سے کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ ذوالکفل کا تعلق برصغیر پاک و ہند کے علاقے سے ہو سکتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *