انسانیت ابھی زندہ ہے
یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے، جب میں مردم شماری کی ایک ٹیم کے ساتھ اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ میرے ساتھ عملے کے متعلقہ لوگ بھی ہوتے تھے، تاہم بعض اوقات اندراج کا کام مَیں اکیلے بھی کرلیا کرتا تھا۔ اسی دوران میری ڈیوٹی ’’بازارِ حُسن‘‘ میں لگ گئی، جہاں آج بھی ’’بلبل ہزار داستان‘‘ کے نام
سے بلڈنگ قائم ہے۔ آفس کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق میں گھر میں مقیم لوگوں کی پہلے شناخت کرتا تھا کہ وہ رجسٹرڈ ہیں یا نہیں۔ اگر رجسٹرڈ افراد کے علاوہ کوئی دوسرے اس گھر میں موجود ہوتے، تو میں اُن سے پوچھ گچھ کرتا کہ پہلے رہایشی کدھر گئے، وغیرہ وغیرہ۔ سروے کے دوران میں نے ایک گھر پر
دستک دی، مگر کافی دیر تک جب کوئی باہر نہ نکلا، تو جھنجھلا کر دوبارہ زور سے دستک دی۔
کچھ دیر بعد ایک نو دس سالہ بچّی نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر رٹے رٹائے توتے کی طرح کہنے لگی، ’’ہم وہ نہیں ہیں، جو آپ سمجھ رہے ہیں۔‘‘ میں نے حیرانی سے اس بچّی کو دیکھا اور شفقت بھرے لہجے میں کہا ’’بیٹا! مَیں بھی وہ نہیں ہوں، جو آپ سمجھ رہی ہیں، میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور مردم شماری کے سلسلے میں آیا ہوں، گھر کے کسی بڑے کو باہر بھیجیں۔‘‘بچّی کچھ سمجھی یا نہ سمجھی، مگر دوڑ کر اندر چلی گئی۔ چند منٹ بعد ایک سہمی ہوئی خاتون دروازے پر نمودار ہوئیں،
میں نے شائستگی سے سلام کیا، اور اپنے آنے کا مقصد بتایا، تو اُن کے چہرے پر اطمینان سا پھیل گیا۔ کہنے لگیں، ’’آپ اندر آجائیے، ورنہ ابھی یہاں بھیڑ لگ جائے گی۔‘‘ میں جھجکتا ہوا اندر چلا گیا۔ نہایت سادہ سا کمرا تھا، خاتون بھی بازارِ حُسن کی نہیں لگتی تھیں، جب میں نے اُن کے گھر کے افراد کی تفصیل مانگی، تو کہنے لگیں، ’’بھائی! مجھے یہاں آئے ہوئے دو سال ہی ہوئے ہیں، اس سے پہلے اس گھر میں کون مقیم تھا، مجھے معلوم نہیں، اگر چاہیں، تو میں ایک عورت کا نام بتادیتی ہوں، آپ یہ معلومات اُن سے حاصل کرسکتے ہیں، لیکن میرے لیے کوئی ایسی مشکل کھڑی نہ ہوجائے کہ یہ ٹھکانہ بھی مجھ سے چھن جائے۔‘‘
میں نے تجسّس سے پوچھا ’’کیا یہ گھر آپ نے کرایے پر لیا ہوا ہے۔‘‘ اس خاتون نے جس کی عمر لگ بھگ پینتیس سال ہوگی، ایک
ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگیں، ’’میں آپ کو ساری حقیقت بتائے دیتی ہوں، کیوں کہ آپ مجھے بھلے مانس انسان لگ رہے ہیں۔ میں ایک کھاتے پیتے اور عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں، والدین کا میرے بچپن ہی میں انتقال ہوگیا، میرے چچا بے اولاد تھے، انہوں نے میری پرورش کی، وہ سخت مزاج آدمی تھے، چچی بھی اُن سے ڈری سہمی رہتی تھیں۔ میں پانچویں کلاس کے بعد آگے پڑھنا چاہتی تھی، مگرچچا نے اجازت نہیں دی، چچی اچھی خاتون تھیں،
انہوں نے چچا کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ نہ مانے اور پندرہ سال کی عمر میں، میری شادی ایک خوش حال گھرانے میں کردی۔ شادی کے بعد زندگی اچھی گزرنے لگی۔ چار بچّے ہوئے، اس دوران میرے چچا اور چچی، حج پرگئے، تو ٹریفک کے ایک حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا۔ میکے میں اب میرا کوئی نہیں رہا تھا۔ سسرال بھرا پُرا تھا، سب کا مشترکہ کاروبار تھا۔ میرے بچّے اچھے اسکول میں زیرِتعلیم تھے کہ قدرت نے ایک بار پھر میرا امتحان لیا۔ میرے شوہر کو پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا اور ایک سال کے اندر ہی وہ ہم سب کو روتا چھوڑ گئے۔
شوہر کے انتقال کے بعد سسرال والوں نے کچھ عرصے تو بچّوں کی ناز برداریاں کیں۔ میرا بھی خیال رکھا، اس دوران بہانے بہانے سے مجھ سے مختلف دستاویزات پر دستخط کرواتے رہے، پھر ایک دن مجھے بلاکر کہا کہ ’’اپنے بچّوں کو لے کر یہاں سے چلی جائو، کیوں کہ تمہارا شوہر، تم لوگوں کے نام کچھ چھوڑ کرنہیں گیا، ہم تمہارا اور بچّوں کا خرچہ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘ یہ سنتے ہی مجھ پر آسمان ٹوٹ پڑا، کافی واویلا کیا، منتّیں، ترلے بھی کرلیے۔
ان کے دیگر رشتے داروں کو بیچ میں ڈالا، تو انہوں نے بتایا کہ ’’تم نے جن دستاویزات پردستخط کیے تھے، اس کی رُو سے تمہارا حصّہ وہ تمہیں دے چکے۔‘‘ میں اَن پڑھ تھی، ان کی چالیں میری سمجھ میں کیسے آسکتی تھیں۔ اور پھر ایک روز بچّوں کی آپس کی لڑائی کا بہانہ کرکے انہوں نے صبح ہی صبح بچّوں سمیت مجھے گھر سے نکال دیا۔ میرے شوہر کے ایک دوست اس علاقے سے دو تین کلو میٹر دُور رہتے تھے، میں نے رکشا پکڑا اور انہیں اپنی بپتا سنانے ان کے گھر جاپہنچی۔
ان کی بیوی، میرے شوہر کے انتقال پر گھر آئی تھیں، اور کہا تھا کہ کوئی پریشانی ہو، تو ضرور بتانا، اسی تسلّی اور آس پر ان کے گھر گئی تھی، لیکن وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ وہ لوگ چھے ماہ پہلے کراچی شفٹ ہوگئے ہیں۔ یہ سنتے ہی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا، چھوٹے بچّوں کا ساتھ تھا، چند سو روپے کے سوا اور کچھ نہیں تھا، بچوں کا پیٹ خالی تھا، انہیں چھولے چاٹ کھلا کرآگے چل پڑی، کچھ پتا نہیں تھا کہ کدھر جارہی ہوں، یہاں تک پہنچی، تو بچّے تھک چکے تھے، مجھ میں بھی ایک قدم بڑھانے کی سکت نہ رہی، تو ایک دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گئی۔ شام سر پرآگئی، لیکن مجھ میں اٹھنے کی ہمّت نہیں رہی تھی، بار بار رونا آرہا تھا، رات کہاں اور کیسے بسر کروں گی، بچّوں کو کب تک بھوکا رکھوں، وہ بے چارے بھی بے حد ڈر گئے تھے، کبھی روتے، کبھی کھیلنے لگتے۔
اسی اثناء میں ایک عورت میرے پاس آئی اور کہا ’’میں بہت دیر سے تمہیں اپنے گھر کی کھڑکی سے دیکھ رہی ہوں، شاید تم لوگوں نے صبح سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہے، تم کہاں سے آئی ہو، کیا ساس نے گھر سے نکال دیا ہے؟‘‘میں نے اقرار میں سرہلادیا، کیوں کہ اب مجھے ہر حال میں رات گزارنے کے لیے کوئی ٹھکانہ درکار تھا۔ وہ کہنے لگی، ’’کچھ دیر بعد یہاں بہت بھیڑ ہوجائے گی، تم میرے ساتھ میرے گھر چلو، باقی باتیں وہیں ہوں گی۔‘‘ گھر پہنچ کر میں نے اسے پوری کہانی سنادی،
اس نے میرا ہاتھ منہ دھلوایا، بچّوں کو اورمجھے کھانا دیا اورخود باہر چلی گئی، کچھ دیر بعد آئی، تو اس کے ساتھ چند عورتیں بھی تھیں، جنہیں وہ میرے بارے میں سب کچھ بتاچکی تھی۔ سب نے باری باری مجھے گلے لگایا، تسلّیاں دیں، پھر ان میں سے ایک بڑی عمر کی خاتون نے کہا کہ ’’یہ بازارِ حُسن ہے، اگر تم رضامندہو، تو ہم تمہیں تحفّظ کے ساتھ پناہ بھی دیں گے، مگر تمہیں یہاں بڑی راز داری سے رہنا ہوگا، مبادا، تمہارے رشتے داروں کو بھنک پڑجائے اور تمہارے لیے مزید مشکلات بڑھ جائیں۔‘‘میرے پاس اورکوئی راستہ نہیں تھا، میں نے فوری طور پر ان کی پناہ میں رہنا قبول کرلیا۔
انہوں نے مجھے رہنے کے لیے نہ صرف اپنے گھر کے قریب یہ خالی گھر دیا، بلکہ میرا سارا خرچہ برداشت کرنے کی ذمّے داری بھی لے لی۔ ہر مہینے راشن کا سامان باقاعدگی سے ڈلواتی ہیں، بچّوں کی پڑھائی کا خرچہ اٹھارہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’جب تک بچّے کچھ بڑے نہیں ہوجاتے، یہیں رہو۔‘‘ بچّی کے بارے میں خاص ہدایت کردی کہ ’’اسے فی الحال گھر سے باہر نہ نکلنے دو، کیوں کہ یہاں اچھے لوگ نہیں آتے، اس کے لیے ہم کسی ٹیچر کا بندوبست کروادیں گے
جو اسے گھر ہی میں تعلیم دے گی۔‘‘وہ دکھی خاتون دو سال سے بازارِ حُسن کی بدنام عورتوں کی بے لوث خفیہ مدد سے اُن ہی کے درمیان اپنے بچّوں کے ساتھ عزت دارانہ زندگی گزار رہی تھی۔ یہ داستان سن کرمیری آنکھیں بھرآئیں، مجھے ایسا لگا کہ میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا ہوں۔ بلاشبہ، اس معاشرے میں ایسی خواتین بھی ہیں، دنیا جنہیں بدکردار کہتی ہیں، لیکن درحقیقت ان کے دلوں میں خدمتِ انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کربھرا ہوا ہے اور ان ہی جیسے لوگوں کی وجہ سے انسانیت ابھی زندہ ہے
Leave a Reply