قربانی سے قبل یہ کام ضرور کر لینا
قربانی کا اجر و ثواب بے حد و حساب ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔،ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت یعنی ذبح کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کے پاس مقبول ہو جاتا ہے تو خوب خوشی اور دل کھول کر قربانی کیا کرو، ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے“ اس کے ساتھ حدیث میں یہ وعید بھی ہے کہ جو شخص وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ہر مسلمان (مرد و عورت) آزاد، مقیم، جو ضروریات زندگی کے علاوہ مقدار نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ (تقریباً ساڑھے ستاسی گرام) سونا یا ساڑھے باون تولہ (تقریباً 612.50)چاندی یا اس کی قیمت یا بنیادی ضروریات کے علاوہ اس قیمت کی جائیداد و سامان کا دسویں ذی الحجہ کی صبح کو مالک ہو، اس پر قربانی واجب ہے۔امام ابو حنیفہؒ کے یہاں بالغ، عاقل ہونا ضروری نہیں
اگر نابالغ بچہ یا پاگل اتنی جائیداد کا مالک ہو جس میں زکوٰة واجب ہو جایا کرتی ہے تو اس پر قربانی واجب ہے، اور اس کا باپ یا اس کا ولی اس کی طرف سے قربانی کرے گا۔ایک دوسری روایت کے مطابق مستحب ہے اور اسی قول کو اکثر فقہاءاحناف نے قابل ترجیح قرار دیا ہے، البتہ ایسے افراد کی طرف سے صدقہ فطر کی ادائیگی کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ جس پر صدقہ فطر واجب ہے، اس پر بقر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے۔ اگر اتنا مال نہ ہو جتنے کے ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، اگر پھر بھی کرے تو ثواب کا مستحق ہوگا۔ مسافر پر حالت سفر میں قربانی واجب نہیں ہے۔ دسویں گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو سفر میں تھا، پھر بارہویں تاریخ کو سورج ڈوبنے سے پہلے گھر پہنچ گیا، یا پندرہ دن کہیں ٹھہرنے کی نیت کر لی تو اب اس پر قربانی کرنا واجب ہو گیا، اسی طرح پہلے اگر اتنا مال نہ تھا، اس لئے قربانی واجب نہ تھی، پھر بارہویں تاریخ سورج ڈوبنے سے پہلے کہیں سے مال مل گیا تو قربانی کرنا واجب ہے۔
قربانی کے جانوروں میں اونٹ پانچ سال سے کم نہ ہو، بیل، بھینس،گائے دو سال سے کم نہ ہوں، اور بھیڑ، بکری، دنبے ایک سال سے کم نہ ہوں۔ اگر بھیڑ اور دنبہ چھ ماہ سے زائد کا ہو اور اتنا موٹا ہو کہ ایک سال کا نظر آ رہا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ قربانی کے جانور کو فربہ، تندرست اور بے عیب ہونا چاہئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کے جانوروں کو کھلا پلا کر خوب قوی کیا کرو کیونکہ پل صراط پر وہ تمہاری سواری ہوں گے۔ قربانی کا جانور اگر ایسا مریل اور دبلا، کمزور ہو کہ اس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ رہ گیا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔ ایسا جانور جو اندھا ہو یا کانا یا لنگڑا ہو جو مذبح تک نہ جا سکتا ہو یا اس کا کوئی عضو ( مثلاً کان یا دم) تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہوتو ان سب کی قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کی سینگ پیدائشی طور پر ہی نہ نکلی ہو یا نکلی ہو مگر کچھ حصہ ٹوٹ گیا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ البتہ جس جانور کی سینگ بالکل جڑ سے ہی ٹوٹ گئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ وہ جانور جس کے پیدائشی طور پر کان نہیں ہیں یا ہیں تو بہت چھوٹے ہیں
اس کی قربانی درست ہے۔ جس جانور کے دانت بالکل ہی نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔ گائے اور بکری اگر حاملہ ہو تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ اگر بچہ زندہ ہی بر آمد ہو تو اس کو بھی ذبح کر لینا چاہئے۔ دنبہ، بکرا، بکری، بھیڑ کی قربانی صرف ایک آدمی کی طرف سے ہو سکتی ہے۔ ایک سے زائد کئی آدمی اس میں حصہ دار نہیں ہو سکتے۔ بیل، گائے اور اونٹ میں سات حصے ہو سکتے ہیں۔ سات سے زائدہ نہیں۔ مگر اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ پہلی یہ کہ حصہ دار کی نیت قربانی یا عقیقہ کی ہو، محض گوشت حاصل کرنے کی نہ ہو۔ (اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور میں عقیقہ کی نیت سے شریک ہوا جا سکتا ہے) دوسری شرط یہ ہے کہ حصہ دار کا حصہ ٹھیک ساتواں حصہ ہو۔ اس سے کم کا حصہ دار نہ ہو ان دو شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہو تو کسی کی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔گائے، بھینس اور اونٹ میں سات افراد سے کم بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی دو، چار یا کم و بیش حصہ لے۔ مگر اس میں یہ شرط ضروری ہے کہ کوئی بھی حصہ دار ساتویں حصہ سے کم کا شریک نہ ہو
ورنہ کسی کی قربانی درست نہ ہوگی۔ جن لوگوں کے بھی حصہ رکھے جائیں ان کے کہنے سے رکھے جائیں۔ یہ نہیں کہ قربانی کا حصّہ دار تجویز کر کے قربانی تو پہلے کر لی جائے اورحصہ داروں کی مرضی و اجازت بعد میں حاصل کی جائے تو اس صورت میں قربانی صحیح نہ ہوگی۔ نراور مادہ دونوں کی قربانی جائز ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے؟کسی پر قربانی واجب نہیں تھی لیکن اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس جانور کی قربانی واجب ہو گئی۔ کسی پر قربانی واجب تھی لیکن قربانی کے تینوں دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت کے برابر خیرات کر دے۔،اور اگر بکری خریدی تھی تو بعینہ وہی بکری خیرات کر دے۔ اگر قربانی کے لئے جانور خریدا اس وقت کوئی ایسا عیب پیدا ہو گیا جس سے قربانی درست نہیں تو اس کے بدلے دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے، ہاں! اگر غریب آدمی ہو جس پر قربانی واجب نہیں تو اس کے واسطے درست ہے کہ وہی جانور قربانی کردے۔ متوفی رشتہ داروں
آنحضرت ﷺ اور دوسرے بزرگوں کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔ البتہ قربانی واجب ہے تو اپنی طرف سے کرنے کے بعد جب سہولت اور گنجائش ہو تو دوسروں کی طرف سے کرے۔ اگر اپنی خوشی سے کسی مردے کو ثواب پہنچانے کے لئے قربانی کرے تو اس کے گوشت میں سے خود کھانا، کھلانا، بانٹنا سب درست ہے، لیکن اگر میت کی وصیت پر قربانی کرتا ہے تو پورا گوشت فقراءاور مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے۔اسی طرح اپنی قربانی کا گوشت کافروں کو بھی دینا جائز ہے بشرطیکہ اجرت میں نہ دیا جائے۔ (عالمگیری) قربانی کی کھال کی قیمت کسی کو اجرت میں دینا جائز نہیں، اس کا خیرات کرنا ضروری ہے۔ قربانی کی کھال کی قیمت کو مسجد کی مرمت یا کسی اور نیک کام میں لگانا درست نہیں۔ خیرات ہی کرنا چاہئے، اگر کھال کو اپنے کام میں استعمال کرے مثلا مشک یا ڈول یا جائے نماز وغیرہ بنوا لیا تو بھی درست ہے، قصائی کو گوشت، چربی مزدوری میں نہ دے بلکہ مزدوری اپنے پاس سے الگ دے۔ قربانی کرتے وقت زبان سے نیت پڑھنا اور دعا پڑھنا ضروری نہیں
اگر دل میں خیال کر لیا کہ میں قربانی کرتا ہوں اور زبان سے کچھ نہیں کہا صرف باسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر ذبح کر دیا تو بھی قربانی درست ہو گئی، اگر یاد ہو تو پڑھ لینا ہی بہتر ہے۔بقر عید کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کرنے کا وقت ہے۔ چاہے جس دن قربانی کرے۔ لیکن قربانی کرنے کا سب سے بہتر دن بقر عید کا دن ہے پھر گیارہویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ۔ بقر عید کی نماز ادا ہونے سے پہلے قربانی درست نہیں۔ جب لوگ نماز پڑھ چکےں، تب کرے۔ رات کو قربانی جائز ہے پسندیدہ اور بہتر نہیں۔ قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے اگر خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو کسی اور سے ذبح کروالے اور ذبح کے وقت وہاں جانور کے سامنے کھڑا ہو جانا بہتر ہے۔
Leave a Reply