اصول پسند
نیویارک کے ساحل سمندر پر فیری (کشتی) کھڑی تھی جو کہ لوگوں کو بیٹھا کر سٹیچو آف لبرٹی تک پہنچاتی․․․․مگر فیری میں سوار ہونے کیلئے پہلے ٹکٹ لینی پڑتی تھی۔ویک اینڈ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم تھا۔فیری کچھا کچھ بھری تھی۔قطار میں کھڑے لوگ دوسری․․․․
تیسری فیری کے انتظار میں کڑی دھوپ میں ہاتھوں میں کوک برگر․․․․جوس اور مووی کیمرے پکڑے کھڑے تھے․․․․اس ہجوم میں صرف جوان اور بچے ہی نہیں تھے بلکہ بوڑھے حضرات بھی نمایاں طور پر نظر آرہے تھے۔
قطار میں کھڑے لوگوں کا جی بہلانے کیلئے ایک سیاہ فام شخص اپنے کرتب دکھا رہا تھا․․․․میوزک بج رہا تھا اور کرتب دکھاتے دکھاتے لوگوں سے روپے بھی بٹور رہا تھا۔مگر کسی کو مجبور نہیں کر رہا تھا کہ کوئی اسے روپے دے۔ ساحل سمندر پر جہاز کشتیاں اور فیری کھڑی تھیں۔
دور سے سٹیچو آف لبرٹی اور سمندر کے دوسرے کنارے پر عمارتیں دکھائی دے رہی تھیں۔یہ مین ہیٹن نیویارک ڈاوٴن ٹاوٴن کی عمارتیں تھیں۔ لوگوں کی قطار کے سامنے ریڑھیوں پر سٹیچو آف لبرٹی اور امریکہ کے مختلف مقامات کی تصویریں بک رہی تھیں۔
قریب ہی بینچ بچھے تھے جہاں پر لوگ بیٹھے ہوئے․․․․اس انتظار میں تھے کہ اس لمبی سی قطار کو ٹکٹیں مل جائیں تو وہ بھی فیری کی ٹکٹ لینے کیلئے قطار میں کھڑے ہو سکیں۔
اس قدر دھوپ تھی مگر ساتھ ساتھ سمندر کی وجہ سے ہوا چل رہی تھی۔
ہمارے لئے تو موسم اتنا شدید نہیں تھا مگر امریکی لوگوں کا برا حال تھا۔منہ ان کے سرخ تھے مرد اور عورتوں نے بنیان اور نکریں پہن رکھی تھیں۔ایسا موسم تھا جیسا کہ اپریل میں ہمارے ملک میں ہوتا ہے مگر ان سے یہ گرمی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
میں سوچ رہی تھی اگر پاکستان جون جولائی میں کسی سیر گاہ میں دوپہر کے وقت چلے جائیں تو ان کا کیا حال ہو۔
لوگوں کے ہجوم سے ہٹ کر ایک بینچ پر بیٹھی تھی کہ میری نگاہ دوسری جناب اُٹھ گئی۔ایک بوڑھا شخص صاف ستھری پینٹ قمیض اور ٹائی باندھے میوزک کے ساتھ ناچ رہا تھا۔
اتنا ضعیف تھا کہ وہ بمشکل اپنے پاؤں میوزک کے ساتھ اٹھاتا۔قریب جا کر پتہ چلا کہ وہ بھکاری ہے۔ایک ڈبہ اس کی میز پر رکھا تھا․․․․لوگ سٹیچو آف لبرٹی کی ٹکٹ لینے کیلئے جب وہاں سے گزرتے تو کچھ ڈالر اس کے ڈبے میں ڈال جاتے۔بھیک مانگنے کیلئے وہ ان تھک محنت کر رہا تھا۔
اتنا مہذب بھکاری جو کسی سے سوال نہیں کر رہا تھا کہ مجھے اللہ کے نام پر کچھ دو․․․․لوگوں کی مرضی پر چھوڑا ہوا تھا․․․․چاہیں تو کچھ خیرات کر جائیں۔
مجھے رہ رہ کر خیال ستا رہا تھا کہ اگر وہ لوگ بھیک بھی مانگتے ہیں تو اس کیلئے انہیں محنت کرنی پڑتی ہے․․․․وہ بھی لاچاری کے سبب وہ بھیک مانگتے ہیں اور ایک ہمارا ملک ہے کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے لوگ محنت مزدوری کرنے کی بجائے بھیک مانگتے ہیں․․․اور جوان عورتیں چھوٹے چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے صدا لگاتی ہیں”اللہ کے نام پر کچھ دے دو․․․․تمہارا بیٹا سلامت رہے․․․․․بی بی تو حج کرنے چلی جائے․․․تیرا شوہر جیتا رہے“․․اگر اتنی دعائیں سننے کے بعد بھی آپ کچھ نہ دیں تو وہ بددعاؤں پر اتر آتی ہیں․․․․جو منہ میں آتا ہے بکے چلی جاتی ہیں․․․․․ بددعاؤں کے خوف سے لوگ انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دے دیتے ہیں․․․․اگر کہیں کہ”بی بی کام کرو گی“تو سو بہانے بنائیں گی۔
اتنے چھوٹے بچے کے ساتھ کام کیسے کر سکتی ہوں․․․میرا شوہر اندھا ہے اس کو کھانا کون بنا کر دے گا․․․یہ سن کر انہیں مزید کچھ کہنے سننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی․․․․․خیر بات ہو رہی تھی ساحل سمندر پر کھڑی فیری کی اور اس پر سوار ہونے والے لوگوں کی․․․وہ نہ جانے کتنے گھنٹے سے قطار میں لگے ہوئے تھے․․․ان میں جینے کی امنگ تھی․․․․وہ ہر لمحے کو مقید کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں․․․وہ صرف آج کا سوچتے ہیں یہ نہیں کہ برسوں کے بعد کیا ہو گا․․․مستقبل سے بے نیاز زندگی گزارتے ہیں۔
میں یہی سوچتے ہوئے وہاں سے چلی آئی کہ جو اچھے اصول انھوں نے زندگی میں اپنا لیے ہیں ہمیں بھی وہ سیکھ کر اختیار کر لینے چاہئیں تاکہ ہمارا معاشرہ بھی بہتری اور ترقی کی طرف گامزن ہو سکے۔
Leave a Reply