وہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی
باپ مزدور تھا. بھائی بھی مزدور تھے بھائیوں نے مل کر اس کی شادی ایک مزدور کے ساتھ کر دی.ایک بات پر یقین کر لیں عورت سراپا رحمت ہے ماں کی صورت ب یوی کی صورت بہن کی صورت بیٹی کی صورت
بات ہے آپ کی نیت کی اگر آپ کی نیت نیک ہے تو آپ اس رحمت کے حق دار بن جائیں گے.
اور اگر آپ کی نیت میں فتورہے تو سراپا رحمت تو کیا رحمت خداوندی بھی آپ سے روٹھ جائے گی ۔
خیر اس مزدور کی نیت نیک تھی بیوی کی صورت میں وہ ہر قسم کی رحمت کا حق دار بن بیٹھا اسے بیرون ملک جانے کا موقع ملا قدم مضبوط ہوتے ہی اس نے اپنی بیوی کو بھی اپنے پاس بلا لیا غریب کی بیٹی خوش حال ہو چکی تھی اب اس کی زندگی کاہر دن یوم عید تھا توہر رات شب تھی مگر اس عالم میں بھی وہ اپنے ابو اور بھائیوں کو بھولی نہیں تھی
پردیس میں دو برس گزر چکے تھے ایک دن اسے اپنے ابو اور بھائیوں کی یاد نے تڑپایا شوہر نے اس کی خواہش کا احترام کیا اب وہ وطن واپس لوٹ رہی تھی اس نے اپنی واپسی کی کسی کو اطلاع نہیں دی تھی وہ اپنے گھر پہنچ کر اچانک سب کو خوشی دینا چاہتی تھی خوشی پانا چاہتی تھی وطن پہنچ کر وہ سب سے پہلے اپنی امی کے پاس گئی امی شہر خاموشاں میں ابدی نیند کے مزے لے رہی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ اس کی آمد پر امی کو سکون ضرور ملاہو گا اب وہ اپنے گھر پہنچی
اسے اچانک اپنے سامنے دیکھ کر اس کے بھائی پریشان ہو گئے ابو کہاں ہیں ؟
اس نے سوال پوچھا اس سوال کا جواب دینا تمام بھائیوں کے لئے مشکل ہو رہا تھا پھر اسے ایک پڑوسن سے اپنے سوال کا جواب بھی ملا اور سراغ بھی ملا
نالائق بیٹوں نے اپنے باپ کو گھر سے نکال دیا تھا اور اب اس کا باپ ایک جھونپڑی میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا تھا
وہ اپنے باپ کے پاس پہنچی
اس کا باپ مضبوط اعصاب کا مالک تھا مگر اپنی بیٹی کی ایک بات سن کر وہ رو پڑا
چلیں ابو اب آپ میرے ساتھ رہیں گے
روتے روتے اس نے اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام لیا اور بولا میں نے اپنی ساری زندگی زندگی کا مقابلہ کرتے گزار دی زندگی میں بس دو بار رویا ہوں ایک بار تب جب تم پیدا ہوئی تھی تو میں شرمندگی کے احساس سے رویا تھا اور دوسری بار آج جب تم نے مجھے سہارا دینے کی بات کی ہے باپ کی بات سن کر بیٹی بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
رحمت تو بس رحمت ہوتی ہے پھر چاہے کوئی اس کی قدر کرے یا نا کرے
Leave a Reply