مالک اور گدھا
گلوب نیوز! ایک دفعہ ایک گدھا ایک گہرے کنویں میں جا گرا اور زور زور سے ہینکنے گا۔ گدھے کا مالک کسان تھا جو کنویں کے کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا۔ جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گدھا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور کنویں کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا،
اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں۔ یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور کنواں پاٹنا شروع کر دیا۔ سب کے ہاتھ میں ایک ایک پھاوڑا تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ کنویں میں ڈال رہے تھے۔گدھا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا۔ اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی۔کچھ ہی لمحے بعد گدھا بالکل خاموش ہو گیا۔جب کسان نے کنویں میں جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گدھے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گدھا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کنویں کے منڈیر تک پہنچ گیا اور باہر نکل کر کھڑا ہوگیا۔ یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں پڑ گئے۔ ان کی حیرانی قابل دید تھی۔ اس غیر متوقع نتیجے پر وہ گدھے سے بھی بڑھ کر مجسمہ حیرت بنے ہوئے تھے۔زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے، ہماری کردار کشی کی جائے لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کاطریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کو شانہ اچک کر نیچے گراتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے
Leave a Reply