مولوی کی دیوانی۔
روبینہ تم بھاگ کیوں نہیں جا تی کل بہت ہنگامہ کھڑا ہو گیا اتوار کا دن مجھے کبھی بھی اچھا نہیں لگا۔ ایک تو دن ہمیشہ دیر سے شروع ہو تا ہے اور دوسرا یہ کہ جلد ختم ہو جا تا ہے اس پر یہ غم الگ کہ کل سے پھر ورکنگ ڈے ہے خیر لاونج سے آ تی احمد کی دادی کی آوازوں نے مجھے لاؤنج میں آنے پر مجبور کر دیا زور و شور سے بو لتی خاتون نے مجھے دیکھ کر دم بھر کو سانس لیا اور پھر شروع ہو گئیں
موضوع ان کی نوکرانی روبینہ ہی تھی اور یہ احمد کی دادی مسز مدثر ہیں جو بالکل ہمارے گھر سے جڑے گھر میں کئی بر سوں سے مکین ہیں اور اس وقت ما ما سے ایک انتہائی حساس موضوع پر گفتگو میں مصروف اپنے والیم کے اونچا ہونے کے احساس سے بے خبر اپنے گھر میں تازہ پیش آ نے والا واقعہ سنا رہی تھیں۔
میں کچھ دیر رکی اور پھر لان میں بر ستی بارش میں بھیگنے لگی کل سارا ہی دن بادل بر سے ہیں ہر چیز جل تھل ہو گئی میری آنکھوں سمیت دنیا میں اتنے دکھ ہیں کہ اپنے چھوٹے چھوٹے غموں پر شر مندگی ہو تی ہے خیر بر نچ میں ما ما سے ساری روداد معلوم ہو ئی شام سے رات او رات سے صبح ہو گئی ہے مگر بار بار ذہن روبینہ کی طرف بھٹک جا تا ہے جب ہم 2002میں اس گھر میں شفٹ ہو ئے تو مدثر مرزا صاحب یہاں پہلے سے ہی موجود تھے یہ پنڈی بھٹیاں سے تعلق رکھتے تھے اب اکتوبر میں اس کی شادی ہے ان کی آخری بیٹی زینبیہ تقریباً میری ہم عمر تھی جب کہ عمر میرے چھوٹے بھائی کا ہم عمر ہے۔
درمیانی دیوار چھوٹی ہونے کی وجہ سے ہم بچپن میں اکثر کھیلنے کے لیے ایک دوسرے کے گھر بذریعہ دیوار کو د جا تے لیکن ان کے گھر سے آ نے کے لیے دیوار پر چڑھنا مسئلہ ہو تا اس کا بھی حل نکل آ یا ان کے گھر ایک فیصل آباد کی لڑکی کام کے لیے تھی اب رینبیہ یا عمر نے ہماری طرف آنا ہو تا یا پھر میں نے اور اسدی نے اپنے گھر لوٹنا ہو تا روبینہ لان کی درمیانی دیوار کے ساتھ اوندھی ہو جا تی ہم سب اس کی کمر پر چڑھ کر کود آ تے ہماری طرف البتہ دیوار کے ساتھ لکڑی کا ڈر بہ رکھا ہو تا اس لیے مشکل نہ ہو تی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں روبینہ بے چاری کی کمر پر کئی بار ظلم ہو تا مگر ہم سب اس کی تکلیف اس کے کرب سے کل بھی نا آشنا تھے اور آج بھی۔
منہ زور مچلتے جذبوں پر بند با ندھتی چونکہ مسز مدثر کانوں کی کچی ہیں اور زبان کی تیز اس لیے مختلف وقت میں مختلف آوازیں ہمارے کانوں میں بھی پڑیں ایک بار روبینہ کو بہت مار پڑی۔ وہ مدثر صاحب کے منجھلے بیٹے کی قمیض کو سینے سے لگا کر سوئی ہو ئی تھی اس سے پہلے اس کپڑے پھیلاتے دیکھا سانولا رنگ اور بھی گہرا ہو گیا تھا کمر جھکی ہو ئی تھی اور منہ سوجا ہوا۔ کیا ق ی ا م ت ہے کہ دکھ ملے اور دکھ بانٹنے والا نہ ملے۔ اور صاف انکار کر گئیں بھئی اگر اتنی ہی بری ہے وہ تو اسے گھر میں ہی مت رکھو۔ ما ما کہنے لگیں دراصل ان کو کام پیارے ہیں بھاڑ میں جائے روبینہ کی جوانی خواہشات آرزوئیں یہ مدثر صاحب کی بیٹی تھوڑی ہے جسے بیا نیے کی انہیں جلدی ہو مکین پہلے بھی بد لیں ہیں پھر بدل جا ئیں گے مسز مدثر کے بعد ان کی بہو ئیں روبینہ کو سارا دن بھگا ئیں گی اب کہیں ملی تو کہوں گی کب تک تم اس زنداں میں ایسے آٹھ دس ہزار کے لیے جو کبھی تیری مٹھی یہ گھر تمہارا نہیں ہے ۔
Leave a Reply