قدرت کا ہاتھ

گلوب نیوز !میں نے زندگی میں اتنی بڑی گاڑی نہیں دیکھی تھی گاڑی کی چمک دمک سج دھج بتاتی تھی وہ ابھی ابھی کارخانے سے نکلی ہے میرا اندازہ بڑی حد تک درست نکلا کیونکہ گاڑی کے سامنے ’’اپلائیڈ فار‘‘ لکھا تھا اور سیٹوں کے اوپر پلاسٹک کے کور چڑھے تھے‘ گاڑی رکی‘ پہلے باوردی شوفرباہر نکلا‘ اس نے جلدی سے پچھلا دروازہ کھولا اور اندر سے ایک خوبصورت نوجوان برآمد ہوا‘ نوجوان نے شاندار اطالوی سوٹ پہن رکھا تھااس کے جسم سے قیمتی خوشبو آ رہی تھی

اس کے چہرے پر امارت کی چمک تھی‘ وہ میرے قریب آیا‘ میں نے مرعوب ہو کر فوراً اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا‘ اس نے میرا ہاتھ پرے دھکیلا اور آگے بڑھ کر میرے ساتھ بغل گیر ہوگیا۔ اس کے معانقے میں بڑی گرم جوشی اور محبت تھی‘ میں اسے اندر لے آیا‘ وہ میرے سامنے بیٹھ گیا‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد تشریف آوری کی وجہ دریافت کی۔وہ مسکرایا’’سر آپ نے مجھے یقیناًنہیں پہچانا ہوگا‘‘ مجھے اس کا چہرہ جانا پہچانا لگ رہا تھا لیکن وہ مجھےپوری طرح یاد نہیں آ رہا تھا‘ اس نے بتایا ’’سر میں پانچ برس پہلے آپ کے پاس نوکری کیلئے آیا تھا‘ آپ نے بے شمار دفتروں میں ٹیلی فون کئے تھے لیکن مجھے نوکری نہیں ملی تھی‘ مجھے اب وہ ذرا ذرا سایاد آنے لگا‘ اس نے سلسلہ کلام جاری رکھا ’’سر میں نے مایوس ہو کر ایک پرائیویٹ دفتر میں نوکری کر لی‘ میں سات ماہ اس دفتر میں رہا لیکن پھر انہوںے مجھے نکال دیا‘ اس کے بعد میں نے کاروبار شروع کردیااللہ نے کرم کیا اور آج میں پاکستان کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتا ہوں‘‘ میرے لئے اس کی بات حیران کن تھی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’صرف چار پانچ برسوں میں اتنی بڑی تبدیلی‘‘ وہ مسکرایا ’’ سر میں آپ کے ساتھ اپنی کامیابی ہی ڈسکس کرنے آیا ہوں‘ مجھے جو بھی دیکھتا ہے وہ میری کامیابی کے بارے میں مشکوک ہو جاتا ہے لیکن سر میرے ساتھ ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا‘ مجھے یقین ہے آپ بھی جب یہ واقعہ سنیں گے تو آپ بھی حیران ہو جائیں گے

سر یہ میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا‘‘ مجھے نوجوان کے حالات میں دلچسپی محسوس ہونے لگی‘ اس نے بتایا ’’سر یہ آج سے ٹھیک چاربرس پہلے کی بات ہے‘ رات کے نو بجے تھے‘ اسلام آباد میں شدید سردی تھی‘ میرے ایک دوست کی والدہ بیمار تھیں‘ میں ان کی عیادت کیلئے ہسپتال گیا‘ مجھے مریضہ کا کمرہ معلوم نہیں تھا لہٰذا میں پرائیویٹ وارڈ کے مختلف کمروں کا جائزہ لیتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا‘ میں نے ایک کمرے کے دروازے پر دستک دی‘ اندر سے کسی خاتون کی آواز آئی‘

کم اِن‘ میں دروازہ کھول کر اندر چلا گیا‘ اندر بیڈ پر ایک بزرگ لیٹے تھے‘ ان کی ناک پر آکسیجن کا ماسک چڑھا تھا‘ وہ ناف تک برہنہ تھے اور ان کی چھاتی پر بے شمار تاریں‘ پائپ اور ٹونٹیاں لگی تھی‘ ان کے بیڈ کے گرد مختلف قسم کی سکرینیں تھیں اور ان سکرینوں پر لہریں سی چل رہی تھیںبابا جی کے سرہانے درمیانی عمر کی ایک نرس کھڑی تھی‘ میں جونہی اندر داخل ہوا وہ تیزی سے میری طرف مڑی اور تلخ آواز میں بولی‘ آپ اب آئے ہیں‘ ہم لوگ دو دن سے آپ کا انتظار کررہے ہیں‘

شرم آنی چاہیے آپ کو‘ میں گھبرا گیا‘ وہ واپس بابا جی کی طرف مڑی‘ ان کے کان پر جھکی اور آہستہ آواز میں بولی‘ بابا جی آپ کا بیٹا آگیا‘ بابا جی نے آہستہ آہستہ پلکیں اٹھائیں‘ دھندلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور دوبارہ آنکھیں موندھ لیں۔مجھے محسوس ہوا وہ نیند کی دواؤں کے زیر اثر ہیں‘ میں نے کچھ بولنا چاہا لیکن نرس نے مجھے گھور کر دیکھا اور اسی تلخ آواز میں بولی ’’اب آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں‘ آگے آئیں‘‘ میں آگے آ گیا‘ اس نے میر اہاتھ بابا جی کے ہاتھ میں دیا

اور ان کے کان پر جھک کر بولی‘ بابا جی انہیں پکڑ لیں‘ اب انہیں جانے نہ دیجئے گا‘ بابا جی نے میراہاتھ گرفت میں لے لیا‘ ان کے کھردرے ہاتھ میں بڑی حدت تھی‘ نرس نے گھڑی کی طرف دیکھا‘ ہاتھ ہلایا اور باہر چلی گئی۔میں بابا جی کے قریب سٹول پر بیٹھ گیا‘ بابا جی بڑے پیار سے میرا ہاتھ سہلانے لگے‘ وہ کبھی میری انگلیاں پکڑتے‘ کبھی انگوٹھے کو گرفت میں لیتے اورکبھی کلائی پکڑ لیتےمیں نے محسوس کیا وہ میرے ہاتھ کو اپنے حافظے میں محفوظ کررہے ہیں‘

میں نے یہ ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی لیکن بابا جی میرا ہاتھ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے چنانچہ میں وہاں ٹک کر بیٹھ گیا اور ساری رات ان کے قریب بیٹھا رہا‘ میری پشت پر کھڑکی تھی‘ اس کھڑکی کی کسی درز سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی‘ یہ ہوا سیدھی میری پشت سے ٹکراتی تھی‘جس کے نتیجے میں میری ریڈھ کی ہڈی برف ہو گئی‘ میں نے آدھی رات کے قریب سوچامیں اٹھ کر کھڑکی بند کر دیتا ہوں‘ میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن بابا جی نے میرے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر دی

لہٰذا میں دوبارہ بیٹھ گیا‘ اسی عالم میں بیٹھے بیٹھے صبح ہوگئی‘ صبح کے وقت بابا جی کا ہاتھ ٹھنڈا ہونے لگا‘ مشینوں کی لکیروں کی فارمیشن بدلنے لگی اور وہ مشکل مشکل سانس لینے لگے‘ میں ہسپتال کے عملے کو بلانے کیلئے اٹھنے لگا تو انہوں نے میرا ہاتھ دبا لیا‘ میں دوبارہ بیٹھ گیا‘ میں عجیب کشمکش کا شکار تھا‘ میں ڈاکٹروں کو بلانا چاہتا تھا لیکن بابا جی میرا ہاتھ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے‘ اسی کشمکش کے دوران بابا جی کی سانسیں بند ہوگئیں‘

مشینوں کی لکیریں سیدھی ہوئیں اورآکسیجن کے پمپ نے سکڑنا پھیلنا بند کر دیا۔میں نے آہستگی سے اپنا ہاتھ نکالا اور ڈاکٹر کو بلانے کیلئے بھاگ کھڑا ہوا‘ ڈاکٹر آئے‘ انہوں نے انہیں شاک دئیے لیکن بابا جی دنیا سے گزر چکے تھے ۔وہ سب دکھی سے ہو کر میری طرف پلٹے‘ انہوں نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھے‘ بابا جی کے منہ پر چادرڈالی اور باہر نکل گئے‘ میں بھی ان کے پیچھے چلتا ہوا ڈاکٹر کے دفترآگیا۔ میں نے بڑے ڈاکٹرصاحب سے پوچھا‘ یہ بزرگ کون تھے‘

انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور دکھی آواز میں بولے‘کیا یہ آپ کے والد صاحب نہیں تھے؟ میں نے شرمندہ سا ہو کر جواب دیا ’’نہیں سر‘ میں نے تو انہیں زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب مزید حیران ہو گئےیہ کیسے ہو سکتا ہے! ہم تو آپ کو ان کا بیٹا سمجھ رہے تھے۔ میں نے اس کے بعد انہیں ساری کہانی سنا دی جس کے بعد انہوں نے مجھے بابا جی کی کہانی سنائی‘ ان کا کہنا تھا بابا جی کراچی کے رہنے والے تھے‘ کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد آئے تھے

لیکن انہیں ہارٹ اٹیک ہوگیا‘ دنیا میں ان کا صرف ایک بیٹا تھا‘ بیٹا لندن میں تھا‘ انہوں نے ہمیں اس کا نمبر دیا‘ ہم نے بیٹے سے رابطہ کیا‘ اس کا موبائل بند تھا‘ ہم نے اس کے موبائل میں پیغام ریکارڈ کرا دیا‘ ہم بار بار فون کرتے رہے‘ پیغام ریکارڈ کراتے رہے مگر اس سے رابطہ نہ ہو سکا‘ اسی دوران آپ آ گئے تو نرس آپ کو ان کا بیٹا سمجھ کر ان کے پاس بٹھا کر چلی گئیڈاکٹر صاحب نے اس کے بعد مجھ سے پوچھا ’’لیکن آپ نے اس وقت کیوں نہ بتایا‘‘ میں نے جواب دیا

ڈاکٹر صاحب جب انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا تو مجھے محسوس ہوا میرا ہاتھ ان کی آخری امید ہے‘ مجھ میں یہ امید توڑنے کا حوصلہ نہیں تھا چنانچہ میں ساری رات چپ چاپ ان کے پاس بیٹھا رہا‘ ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میری پلکیں بھی گیلی ہو گئیں اور میں روندھے ہوئے گلے کے ساتھ باہر آ گیا اور اس کے بعد کبھی اس ہسپتال کی طرف نہیں گیا۔وہ خاموش ہوگیا‘ اس کی پلکوں پر موتی چمک رہے تھے‘ کمرے میں بڑی دیر تک خاموشی چھائی رہی‘

میں نے توقف کے بعد پوچھا ’’لیکن اس واقعے کا آپ کی کامیابی کے ساتھ کیاتعلق ‘‘ وہ مسکرایا ’’پتہ نہیں سر لیکن میرا خیال ہے میری کامیابی اور یہ واقعہ کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ گویا ہوا ’’ سر وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں نے مٹی کو ہاتھ لگایا تو وہ سونا ہو گئی‘ میں نے جیب سے ایک روپیہ نکالا تو وہ ایک کروڑ بن کر واپس آگیاآپ میری قسمت کا اندازہ لگائیے میں نے ستمبر میں مظفرآباد میں ایک پلازہ خریدا تھا‘

8اکتوبر2005ء کو زلزل آیا‘ اس پلازے کے آگے پیچھے‘ دائیں بائیں تمام عمارتیں گری تھیں لیکن اس عمارت کو خراش تک نہ آئی۔ میں جس بینک میں اکاؤنٹ کھول دیتا ہوں یقین کریں اس بینک کے ریونیو میں اضافہ ہوجاتا ہے اور میں جس کاغذ پردستخط کر دیتا ہوں یقین کریں کاغذ کا وہ ٹکڑا دوچار کروڑ روپے کا ہو جاتا ہے چنانچہ مجھے محسوس ہوتا ہے میں نے جب اس بابا جی کو اپنا ہاتھ پکڑایا تھا تو قدرت نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا تھا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘

میں نے اس سے پوچھا ’’وہ کون سا ہاتھ تھا‘‘ اس نے اپنا دائیاں ہاتھ آگے بڑھا دیا‘ میں اپنی کرسی سے اٹھا‘ میں نے وہ ہاتھ پکڑا اور اپنی گیلی آنکھیں اس کی ہتھیلی پر رکھ دیں‘ یہ میری زندگی کا پہلا جنتی ہاتھ تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *