چوڑیاں بیچنے والی کا عشق
وہ چوڑیاں بیچنے والی لڑکی ہمارے گاؤں میں رہتی تھی اور میں چوہدریوں کا لڑ کا اس کو مجھ سے عشق ہو گیا تھا کہا کرتی تھی اوے میرے سے شادی کر لے ساری زندگی بیٹھا کے کھلاؤں گی تیرے لیے بھیک بھی مانگنی پڑی مانگ لوں گی پر تو میرے سے ویا ہ کر لے پھر وہ گاؤں چھوڑ کر چلی گئی ایک روز سب دوست کہنے لگے چلو با ہو سلطان دربار پر چلتے ۔۔!
کبھی کسی چوڑیاں بیچنے والی کو آپ سے پیار ہوا ہے وہ کرتی ہے محبت دیکھنا کبھی مجھ سے ہوا تھا ایک چوڑیاں بیچنے والی کو پیار کرتی تھی اوئے مسات میرے نال شادی کر لائے تینوں خود بھیک ما نگ کر کھلا ؤں گی پر شادی کر لے کیا محبت تھی اسکی جہاں بھی جاتی تھی میری لیے وہاں کی مشہور چیز تحفے میں لاتی پھر ہمارے ہی گاؤں میں چا ر سال بیٹھے رہے جھنگ سے تھے وہ روزانہ آتی تھی منتیں کرتی روتی جہاں بھی ملتی روک لیتے مجھے کہتی اوئے مسات شادی کر لے نا مجھ سے پھر وہ واپس جھنگ چلے گئے اپنے آبائی گاؤں سب دوستوں نے کہا چل یار دریائے چناب پہ چلتے ہیں۔
پیا با ہو سلطان کے مزار پر بھی جاتیں گے میں چل دیا چناب پہ گئے مچھلی کھائی خوب انجو ئے کیا اس دن مجھے ایک عجیب اداسی تھی دل جیسے مر گیا ہو وہاں سے ہم باہو سلطان کے مزار پر چل دئے وہاں پہنچ کر سب مزار پہ چل دیے میں نے ما نتا پیروں فقیروں کو میں ادھر اپنی کار کے پاس کھڑا ہوگیا پیچھو سے کسی نے بازوں پکڑا اور آہ سی سنائی دی مسات میری دعا رنگ لے آئی تیرا دیدار ہو گیا۔ ساڈی عید ہو گئی میں جب بھی دربار پر آتی تھی تجھے مانگتی تھی اب تیری لائی بیٹھی ہوں شادی نہیں کی آنسو تھے کہتی ہے بھیک منگنا چوڑیاں بیچنا میرا قصور تو نہیں نہ میری قسمت میر نصیب کا قصور ہے تو سزا مجھے کیوں وہ سب کے سامنے گلے لہگ کے رونے لگی اور گھر چلنے کے لیے پاؤں پکڑ لیے سب لوگ دیکھ رہے تھے۔
بہت بے عزتی ہوئی سب لوگ جمع ہو گئے سب دوست کسی طرح اس سے گلی سے اس کے ہاتھ چھوڑائے اور اس کو پکڑ کر کار میں بیٹھا یا اور دوستوں کو کہا تم نہ جا نا گھر نہیں تو گھر والے پریشاں ہو جائیں گے اس کے گھر پچا س کلو میٹر دور گیا سب ریت گاڑی کی ہوا نکالی بہت مشکل سے اس کے گاؤں پہنچے سب لوگ دیکھ رہے تھے۔ عجیب نظروں سے جاتی ہوئے اس نے طوفاں کھڑا کر دیا سب سہیلیاں اس نے جمع کر لی نالچنے لگی اور خاطر تو اضو میں لگ گئے سب گھر والے اب مجھے لگ رہا تھا آج خیر نہیں آج خود کشی واجب ہو گئی یا ر اس نے اپنے ہاتھوں سے ایسی کھانے بنائے کہ لافاظ نہیں پاس رات ہو گئی اس کے ابا بھائی سب کام سے واپس گھر آئے سب خوش ہونے لگی اب ڈرامہ کہو یا اس کی محبت اس نے کہا میرے سامنے وہ اپنی چارپائی ڈالی گئی رات بھر وہ مجھ سے باتیں کرے گی رات بھر سونے نہیں دیا باتیں اس کی ختم ہی نہیں ہوئی صبح ہوئی اس کے ایک سہیلی وہ اس کا ایک بھائی مجھے واپس دربار چھوڑ گئے جب جانے لگی تو ہاتھ چو م کر کہا تیرا قصور نہیں میری قسمت کا ہے۔
جو میں چوڑیاں بیچنے والی گھر پیدا ہوئی رونے لگی بڑی مشکل سے ہم سب نے چپ کر ا یا اسے اور شاپنگ کرائی اور وہ چل دی تب تک دیکھتی رہی جب تک نظر جاتی سب کو بتانا چاہتا ہوں مجھے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہے تین سال اس کو گلی گلی تلاش کر رہا ہوں نہیں مل رہی مجھے محبت کی بد دعا لگی ہے میں اس کو بھول نہیں پا رہا مجھے اس کی معصوم باتیں میرے ملنے پر جس طرح وہ خوش ہوئی اور ساری رات جس طرح میرے چہرے پر نظر ٹکی رہی میں جی نہیں پا رہا وہ بھی شاید ہار گئی یا اللہ مجھے معاف کر دے پیار ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
Leave a Reply