ایک بادشاہ اور دیہاتی
ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا تو راستہ بھٹک گیا۔بادشاہ نے ایک شیر کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔بادشاہ نے شیر پر تیر چلائے
مگر وہ تیر شیر کو نہ لگ پائے اور بادشاہ کو اپنی جان کی فکر ہونے لگی۔بادشاہ نے بھاگنا شروع کر دیا تو شیر بھی بادشاہ کے پیچھے بھاگا۔
آگے جاکر ایک دلدل تھی تو بادشاہ نے جان بچانے کے لیے دلدل میں چھلانگ لگا دی۔جب شیر واپس چلا گیا
تو بادشاہ دلدل سے باہر آیا۔بادشاہ بھوک سے نڈھال ہو چکا تھا۔آگے جا کر ایک دیہاتی کھڑا تھا جس نے بہت سارے تربوز اکھٹے کیے ہوئے تھے
۔کیچڑ کی وجہ سے بادشاہ کا حلیہ ہی بگڑ چکا تھا۔جب دیہاتی سے بادشاہ نے ایک توبوز مانگا تو اس نے کہا کہ میں نے یہ توبوز بادشاہ کے لیے اکٹھے کیے ہوئے ہیں ۔میں تجھے ایک تربوز بھی نہیں دوں گا۔بادشاہ نے یہ ظاہر نہ کیا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔بادشاہ اپنے دربار چلا گیا اور کچھ دن بعد وہی دیہاتی بادشاہ کے لیے تربوزوں کی ایک بوری تحفے میں لایا۔بادشاہ دیہاتی کے اس خلوص سے خوش ہوا اور ایک ہیرے کا لاکٹ دے دیا
۔جب دیہاتی لاکٹ لے کر روانہ ہوا تو وزیر نے کہا: یہ آپ نے کیا کر دیا ؟ آپ نے دیہاتی کو اس کی اوقات سے بڑھ کر تحفہ دے دیا۔بادشاہ نے دیہاتی کو واپس بلوایا اور وزیر سے کہا : تم اس دیہاتی سے اپنی مرضی کے تین سوال پوچھو:اگر یہ جواب نہ دے پایا تو یہ لاکٹ تمہارا ہو گا۔لیکن اگر یہ تمہارے سوالوں کا جواب دینے میں کامیاب ہوا تو میں اس کو تمہاری جگہ وزیر بناؤں گا۔وزیر نے دل میں سوچا اس جاہل دیہاتی سے ایسے مشکل سوال پوچھوں گا
کہ یہ چکرا جائے گا۔وزیر نے پہلا سوال پوچھا کہ آسمان پر ستاروں کی تعداد کتنی ہے۔ دیہاتی نے بادشاہ کے گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آسمان پر تاروں کی تعداد اتنی ہی ہے جتنے اس گھوڑے کے جسم پر بال ہیں۔وزیر نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو۔
دیہاتی نے کہا اگر آپ کو شک ہے تو آپ آسمان پر تارے گن لیں اور پھر اس گھوڑے کے جسم پر بال بھی گن لیں۔اگر تعداد برابر نا ہوئی تو پھر کہنا۔وزیردیہاتی کی بات سے لاجواب ہو گیا۔وزیر نے دوسرا سوال پوچھا کہ زمین کا مرکز کس جگہ پر ہے۔دیہاتی نے کہا:زمین کا مرکز یہی جگہ ہے جہاں میں کھڑا ہوں۔اگر آُپ کو شک ہے تو زمین کے کسی کونے سے پیمائش کر کے دیکھ لیں۔دیہاتی دوسری بار بھی لاجواب ہو گیا۔وزیر نے دیکھا کہ ایک مچھر بادشاہ کومسلسل تنگ کر رہا ہے اور وزیر نے جلدی سے دیہاتی سے پوچھا : اللہ تعالیٰ نے اس مچھر کو کیوں پیدا کیا ہے
؟دیہاتی نے دیکھا کہ بادشاہ مچھر کو مارنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن مارنے میں ناکام ہو ریا ہے۔دیہاتی نے مسکرا کر کہا: اللہ تعالیٰ نے اس مچھر کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ دنیا کابادشاہ اس حقیقت کو تسلیم کر لے کہ ان کا زور ایک مچھر پر بھی نہیں چل سکتا۔بادشاہ دیہاتی کے ان جوابات سے خوش ہوا ۔یوں وزیر لاکٹ کی اپنی لالچ میں اپنی وزارت سے بھی پاتھ دھو بیٹھا۔بادشاہ نے دیہاتی کو اپنا وزیر بنا لیا اور وزیر سے کہا :اب ہر سال میرے لیے تازے تربوز لانے کی ذمہ داری تمہاری ہے۔نتیجہ: زیادہ کی لالچ آپ کو برباد کر دیتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے جتنا آپ کو دیاہے اس پر مطمن ہونا چاہیئے۔دوسرا سبق یہ ہے کہ کسی کو بھی ظاہری حلیے سے حقیر نہیں سمجھنا چاہیئے۔ہو سکتا ہے کہ جس کو آپ حقیر سمجھ رہے ہوں،وہ آپ سے زیادہ عقلمند ہو۔
Leave a Reply