ایمانداری کا صلہ
ریل گاڑی اپنی منزل کی جانب تیزی سے رواں دواں تھی۔سخت سردی کی وجہ سے مسافروں نے تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کر رکھے تھے ۔رات گہری اور سردی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔عرفان اس سرد رات میں اپنے خیالات میں الجھا ہوا منزل مقصود کی جانب گامزن تھا۔آج اسے رہ رہ کر اپنی بوڑھی ماں کا خیال آرہا تھا،جسے وہ روتا ہوا چھوڑ کر کام کی تلاش میں دوسرے شہر جا رہا تھا۔
عرفان ایک شریف خاندان کا چشم و چراغ تھا۔اس کا باپ ایک فیکٹری میں ملازم تھا،زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ایک دن عرفان اسکول سے واپس گھر آیا تو گھر پر ایک بُری خبر اس کی منتظر تھی،اس کا باپ آج ان دونوں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔عرفان کی ماں کا رو رو کر بُرا حال تھا،خود عرفان کی حالت بھی ماں سے مختلف نہ تھی۔عرفان کو اپنے باپ کی موت کا بے حد دکھ تھا لیکن صبر کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔
باپ کی موت کے بعد عرفان کے گھر کے حالات بھی خراب ہو گئے تھے۔کیونکہ جب کوئی کمانے والا ہی نہ ہو تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ عرفان ایک باضمیر نوجوان تھا۔اس سے یہ برداشت نہ ہو سکا کہ اس کے ہوتے ہوئے بات فاقوں تک پہنچے،اس لئے عرفان نے اپنے شہر میں کام کی تلاش شروع کر دی لیکن اسے ہر جگہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔آخر تنگ آکر اس نے اپنی ماں سے دوسرے شہر جانے کی اجازت مانگی،آخرکار عرفان کے اصرار پر اس کی ماں نے بڑی مشکل سے اسے اجازت دے دی اور آج وہ اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ دوسرے شہر جا رہا تھا۔”ٹکٹ دکھاؤ“ٹکٹ چیکر کی کرخت آواز نے اس کے خیال کا تسلسل توڑ دیا۔عرفان نے فوراً ٹکٹ چیکر کو اپنا ٹکٹ دکھایا۔
ٹکٹ چیکر نے ٹکٹ دیکھ کر عرفان کو واپس کر دیا اور آگے بڑھ گیا۔عرفان نے گھڑی میں وقت دیکھا،رات کے تین بج رہے تھے۔کچھ دیر بعد اس کا اسٹیشن آگیا اور عرفان اپنا سامان لے کر اسٹیشن پر اتر گیا۔اسٹیشن پر اترتے ہی اسے ہوا کا ایک تیز جھونکا لگا،جس سے اس کا جسم کانپ کر رہ گیا۔رات ابھی کافی باقی تھی،اس لئے عرفان نے سوچا کہ صبح ہونے تک اسٹیشن پر ہی سویا جائے۔ابھی وہ سونے کے لئے مناسب جگہ تلاش کر ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک پرس پر پڑی۔
عرفان نے فوراً وہ پرس اٹھا لیا اور اسے کھول کر دیکھا، اس کے اندر بہت سے روپے تھے۔عرفان نے جب تمام پیسے پرس سے نکالے تو پرس کے اندر سے ایک شناختی کارڈ بھی ملا۔عرفان نے شناختی کارڈ پر ایڈریس دیکھا تو وہ قریبی شہر کا تھا۔
عرفان نے اپنے دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ وہ یہ پیسے اس کے مالک تک پہنچائے گا۔کچھ دیر بعد اس شہر کو جانے والی گاڑی آگئی۔عرفان اس گاڑی پر سوار ہو گیا۔بہت جلد اس شہر کا اسٹیشن آگیا۔عرفان گاڑی سے اترا اور مکان تلاش کرنے لگا۔سورج اپنی کرنوں سے روشنی پھیلانے میں مصروف تھا،کچھ دیر بعد عرفان ایک مکان کے سامنے کھڑا تھا۔مکان ایک بہترین طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔عرفان نے کال بیل بجائی،کچھ دیر بعد ایک خوش پوش نوجوان باہر نکلا۔عرفان نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور جیب سے شناختی کارڈ نکال کر دیکھا،شناختی کارڈ پر اسی شخص کی تصویر لگی ہوئی تھی۔عرفان نے ساری صورتحال اسے بتائی اور اس کے پیسے اور شناختی کارڈ واپس کر دیا۔وہ شخص عرفان کی ایمانداری سے بہت متاثر ہوا۔ عرفان کو اپنے ساتھ اندر لے گیا۔اس شخص نے عرفان کی خوب خاطر مدارت کی اور دوسرے شہر آنے کی وجہ پوچھی۔یہ نوجوان ایک بہت بڑی فیکٹری کا مالک تھا۔عرفان نے اسے بتایا کہ وہ دوسرے شہر نوکری کی تلاش میں آیا ہے۔اس شخص نے عرفان کی ایمانداری کو دیکھتے ہوئے فوراً اپنی فیکٹری میں ملازم رکھ لیا۔عرفان بھی بہت خوش ہوا کہ اسے اس کی ایمانداری کا پھل مل گیا ہے۔اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم پر چاہے کتنی ہی مصیبت کیوں نہ آجائے،مصیبت سے کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور ہمیں ہمیشہ ایمانداری سے کام کرنا چاہیے۔
Leave a Reply