شادی کی پہلی رات تھی اور میں اپنی دلہن کے پاس کمرے میں جانے کے لیے بے تاب تھا
عمر نہایت مو دب دین دار اپنے والدین کی اکلو تی اولاد والدین کی آنکھوں کا تارا تھا تمام دوست احباب اسکے اعلیٰ اخلاق کے گرویدہ اللہ نے اس کو بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا عمر پڑھائی کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا عمر نہایت ذہین اور ہو نہار اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کا پسند یدہ طالب علم جس کو دن رات مفید علم پا لینے کی جستجو رہتی با با اور امی جا کی ہر فون کا ل پہ ایک ہی رٹ ہو تی بیٹا اپنا گھر بسا لے نکاح کر لے تیرا دین مکمل ہو جا ئے گا ان شاء اللہ ہماری زندگی کا کوئی بھر وسہ نہیں ہے نا جا نے کب زندگی کی بازی ہار جا ئیں ہم چاہتے ہیں تیرے لیے اپنے ہاتھوں سے دین دار نیک لڑکی بیاہ کر لا ئیں جو تیری دین و دنیا کا کل سر ما یہ ہو گی تیرے آ نے والی نسل کو پروان چڑھائے گی عمر جو نہا یت ادب سے والدین کی نصیحتوں کو سن رہا تھا
آخر کار اس کو ہتھیار ڈالنے پڑ گئے لمبی سانس لے کر بو لا ٹھیک ہے با با جان جیسے آپ کی خواہش ہے میں خوش ہوں لیکن میں صرف دو ہفتے کی چھٹی کے لیے آسکتا ہوں مجے واپس آ کر اپنے امتحانات کی تیاری بھی کرنی ہے عمر بیٹا ایک بہت اچھا رشتہ ہے میرے بہت قریبی دوست کی بھانجی ہے تمہاری ماں مل چکی ہے بہت ہی عمدہ اخلاق اور اعلی صفات کی مالک ہے۔ تیرے لیے بہترین جیون سا تھی ثابت ہو گی اور میں اپنی تحقیق کر وا چکا ہوں الحمد اللہ عمر کا دل کچھ دیر کے لیے خیالی تصورات میں چلا گیا تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد گو یا ہوا ۔۔ ٹھیک ہے با با جان جو آپ کو منا سب لگتا ہے کر گزریں مجھے پورا یقین ہے آپ کا یہ فیصلہ خیر سے خالی نہیں ہوگا۔ آپ نے ہمیشہ میری بہترین رہنما ئی کی ہے اور مجھے آپ کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں ہے بیٹا تو نے مرا مان رکھ لیا ہے مجھے تم سے ہی امید تھی : با با بھر ی ہوئی آواز میں بو لے۔ بیٹا ! اللہ تجھے دین اور دنیا میں کا میاب کرے میرے بچے آمین۔
بابا کی آنکھیں شدت جذبات سے امڈآئیں۔مردانہ و جا ہت کا منہ بولتا ثبوت، چھ فٹ کا قد کشادہ سینہ۔ عمر چہرے پہ سنت رسول سجائے کسی بھی لحاظ سے کم نہ تھا موتیوں جیسے دانت جو کثرت مسواک سے اور دمکتے تھے خوبصورت روشن آنکھیں اور کشادہ پیشانی کسی بھی دین دار دو شیزہ کے لیے ایک عظیم نعمت سے کم نہ تھی پاکستان آ مد پر والدین کی خوشی دیدنی تھی ہر طرف خوشیوں کا سما ں تھا نکاح کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں با با جان نے صبح روانگی کے انتظا مات سے آگاہ کیا راولپنڈی سے جہلم دو سے اڑھائی گھنٹے کا سفر ہے اور ہم سیدھا مسجد جا ئیں گے نماز جمعہ کی ادائیگی اور پھر نکاح ان شاء اللہ ۔۔ با با جانی نے کھلے دروازے سے گاڑی گھر کے بڑے صحن میں پارک کی جب کہ دلہا میاں گھر کے تالے اور گھر کی بتیاں جلانے کی تگ و دو میں دکھائی دیئے زلیخا کا دل مچلا اور جی چا ہا وقت ادھر ہی تھم جا ئے اور وہ اپنے دلہا جی کو دیکھتی ہے واپڈا کی کرم نوازی کے کیا کہنے بجلی کا جنازہ اٹھ چکا تھا ۔
واپڈا کے کارنا مے ہر وقت لوگوں کی خوشیوں کو دو با لا کرنے میں مصروف تھے پورے گھر کے دروازے کھل ۔ بابا جان نے بھی خوب محبتیں نچھاور کیں اور کھانے کے لیے بلا یا لیکن عمر نے صاف انکار کر دیا کہ بھوک نہیں ہے اسکا دل زلیخا کی سانولی رنگت دیکھ کر ٹوٹ گیا با با جان نے بو لا بیگم پسے بادام اور دودھ لے آ ئیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا اس سنت کو پورا کر ے امی ٹھیک دو منٹ بعد ٹھنڈے دودھ کا گلاس لیے عمر کو تھما تے ہوئے بو لیں بیٹا پہلے خود پیوا ور پھر زلیخا کو پلاؤ اور پھر دودھ کی دعا یا د دلائی۔ عمر نے غٹا غٹ دودھ کا آدھا گلاس پیا اور باقی زلیخا کو پکڑا یا اس نے بھی عظیم دقت کے ساتھ چند گھونٹ نیچے اتارے اور امی با با کی طرف دیکھا تو دونوں مسرت ۔
جس کے غم سے اس کا دل بجھ سا گیا کہ آخر امی با با نے اس کا انتخاب کیوں کیا؟ میرا اور اس کا بھلا کیا جوڑ؟؟؟ وہ خود ہی دل میں سوال و جواب کیے جا رہا تھا عمر کا دل ٹوٹ چکا تھا اس کو اپنے والدین سے ایسے انتخاب کی قطعاً امید نہ تھی آخر ظاہری حسن بھی کوئی چیز ہے۔ اتنے سال خود کو عورت کے فتنوں سے بچائے رکھا ز ن ا کاری کے گند سے خود کو بچا یا تو کس کے لیے۔۔۔؟ ایک حلال رشتے کے لیے ایک دل کو موہ لینے والی بیوی کے لیے لیکن اس میں تو کشش ہی نہیں تھی سانولی سی مریل ککڑی۔ عمر کے اندر سر د جنگ کا سلسلہ بدستور جاری تھا دماغ جیسے ماؤف ہو رہا ہو۔ جب وہ بیڈ پر آ یا تو اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ۔۔۔۔
Leave a Reply