وہ ایک پاگل تھی مگر انتہائی حسین تھی اس کو دیکھ کر پری کا تصور ذہن میں آتا تھا

وہ ایک پاگل تھی مگر انتہائی حسین تھی اس کو دیکھ کر پری کا تصور ذہن میں آتا تھا میرے استفسار پر پتہ چلا کہ پاگل خانے میں اسے داخل ہوئے چار سال ہو چکے تھے جب سے میں نےہیڈ ڈاکٹر کے طور پر پا گل خانے کا چارج سنبھا لا ہے میری کوشش تھی کہ میں مریضوں کی بھلائی اور پاگل خانے میں میسر سہو لیات میں بہتری لا ؤں۔ میں نے اپنی سائیکٹریٹ کو ڈگری لندن سے لی اور میں سا لہا سال سے وہیں پر یکٹس کر رہی تھی مگر جب عالمی ادارہ صحت کی طرف سے میرے میاں کا تبادلہ پاکستان ہوا تو میں نے بھی ملک عزیز واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ جب میں اس پاگل خانے میں بطور انچارج مقرر ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک میں ان دما غی امراض کے حامل افراد کے ساتھ کیا زیادتی ہو رہی ہے۔

سہو لیات کی انتہائی قلت تھی عملہ سارا ان لوگوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کر تا میری ساری توجہ ہسپتال کے معا ملات درست کرنے پر تھی اچانک ایک دن مرا ٹاکر از رین خان ہو گیا اس کو دیکھ کر مجھے فوراً اندازہ ہو گیا کہ وہ کسی بھی دماغی بیماری کا شکار نہیں ہے میں نے آج اسے ٹو ون سیشن کے لیے بلا یا۔ میرے پہلے سیشن پر وہ خاموش بیٹھی رہی مگر آخر کار مری کوششیں رنگ لا ئیں اور میں اس کی کہانی جاننے میں کا میاب ہو گئی زرین خان ایک متو سط طبقہ کی پڑھی لکھی لڑکی تھی وہ اخبار میں جر نلسٹ کے طور پر کام کرتی تھی اس کے ماں باپ ایک کار حادثے میں جان بحق ہو گئے تھے۔

وہ اپنے ماں باپ کی اکلو تی اولاد تھی جر نلزم اس کا عشق تھا اس کا منگیتر بھی ایک جر نلسٹ ہی تھا شو مئی قسمت زرین اپنی شادی کی چھٹیوں پر جانے سے پہلے آخری دن ایک پریس کانفرنس میں کوریج کے لیے گئی کوریج کے دوران ایک مشہور سیاستدان کی ہوس ناک نظر اس پر پڑ گئی۔ اس نے پہلے اس کو چند راتوں کے لیے خر ید نا چا ہا مگر اس کا انکار دیکھ کر اس کو اپنی چو تھی بیوی کا اعزاز دینے پر راضی ہو گیا اس نے زرین کے منگیتر کو ایسا ڈرا یا دھمکا یا کہ اس نے زرین سے دو سال پرانی منگنی توڑ دی اور ملک سے با ہر چلا گیا وہ سیاستدان زرین پر روزگار سے لے کر زندگی تک کے دروازے ایک ایک کر کے بند کر تا جا رہا تھا۔

مگر زرین اپنی جگہ چٹان کی طرح قائم تھی زرین کے انکار نے اس کے اندر کے حیوان کو بیدار کر دیا وہ ایک رات اس کے گھر زبردستی اپنے غنڈوں کے ساتھ گھس آیا اور اس کو بے آبر و کرنے کی کوشش کی اس نے بہادری سے اس کا مقابلہ کیا اور اس کو ایک آنکھ سے محروم کر دیا پولیس اور پرریس کی آمد پر اس با اثر شخصیت نے اس کو پا گل بنا کر پیش کیا زرین جانتی تھی کہ اگر وہ پو لیس کی حراست میں گئی تو اس کا کیا حشر ہو گا۔ زرین خان بے ساختہ ہنسی اور بولی غرض ڈاکٹر صاحبہ اپنی عزت بچانے کے لیے میں نے یہ کڑوی گولی نگل لی ہمارے معاشرے میں اکیلی عورت کو تو لوٹ کا مال تصور کیا جا تا ہے یقن کر یں ڈاکٹر صاحبہ ان پاگلوں کے جھر مٹ میں میں زیادہ محفوظ محسوس کر تی ہوں بہ نسبت اس ظالم دنیا کی بھیڑ میں ۔ میں حیرت سے اس بنت حوا کو دیکھتی رہی۔ واپسی کے سفر میں میں سوچتی رہی یہ ہوس کے پجاری کب تک بنت حوا کی بے حر متی کر تے رہیں گے؟ ہمارے ملک میں کب عورت کی آبر و محفوظ ہو گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *