دوسری بیوی
ایک سعودی شخص نے فلپائینی عورت سے چھپ کر شادی کر لی۔ چونکہ وہ پہلے شادی شدہ تھا۔ اور پہلی بیوی سے اس کی اولاد بھی تھی۔ جب اس شخص کو بیماری لاحق ہوئی تو اس نے پہلی بیوی سے جو اولاد تھیں ، ان کو وصیت کے لیے جمع کیا اور ان میں سے اپنے بڑے بیٹے کو بتایا۔ بیٹا میں نے چھپ کر فلپائینی عورت سے بھی شادی کی ہوئی ہے ۔ میرے بعد ان کا خیال رکھنا۔ اور وراثت میں ان کو بھی حق دینا۔ جہاں وہ رہتی تھی ان کا مکمل پتہ بھی بتادیا۔
کچھ دن بعد وہ شخص وفات پاگیا تو ان کا بیٹے قاضی کے پاس گیا۔ اور پوری تفصیلات بتادی۔ قاضی نے فیصلہ رکوادیا اور حکم دیا کہ فلپائینی عورت کو بھی یہاں پیش کریں۔ تو بڑے بیٹے نے اپنے والد مرحوم کے دیئے ہوئے ایڈریس کے مطابق فلپائینی پہنچا۔ بڑی مشکل سے اس گلی میں پہنچا جہاں وہ رہتی تھی ۔ دوسری طر ف وہ عورت جو اس کے والد کی زوجہ تھی۔ اپنے شوہر کے بیٹے کو دیکھ کر ہی بتا دیا کہ میں وہی عورت ہوں ۔ جسے تم تلاش کر رہے ہو۔ اور مجھ تک یہ خبربھی پہنچی ہے ۔ کہ میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے۔ تو بیٹے نے بھی ساری تفصیلات بتا دی اور ان کو سعودیہ کی طرف سفر کےلیے قائل کیا۔ اور اپنی دوسری ماں کو لیکر سعودیہ پہنچے اور سیدھا قاضی کے پاس گئے تو اس عورت کی حصے میں آٹھ لاکھ ریا ل آیا۔ (جو پاکستانی روپیوں میں تقریباً دو کروڑ سولہ لاکھ کے لگ بھگ بنتے ہیں)
اور ساتھ ہی قاضی نے حکم دیا کہ ان کو عمرہ کی ادائیگی کے بعد فلپائین روانہ کیا جائے۔ واقعہ کے ٹھیک چار سال بعد بڑا بیٹا جب فلپائین ، اپنی دوسری ماں سے ملنے اور حال احوال پوچھنے کی غرض سے گیا تو وہاں پہنچ کر اس کو بہت تعجب ہوا۔ اور اس سے کہا کہ : ماں جی ! اتنی بڑی رقم وراثت ملنے کے باوجود آپ پرانے خستہ حال مکان میں رہ رہی ہیں؟ ماں جی اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک جگہ پر لے گئی ۔ جہاں ایک بڑااسلامی ادارہ قائم تھا۔ وہاں حفظ القرآن کا شعبہ بھی تھا۔
اور تییم خانہ بھی ۔ ماں جی نے کہا: بیٹا سر اٹھا کر ادارے کے بورڈکی طرف دیکھنا: بورڈ دیکھ کر بیٹے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کیونکہ بورڈ پر ان کے والد کانام لکھاہوا تھا۔ اس نیک صفت عورت نے کہا! میں نے یہ ادارہ اپنے وراثت کے پیسے سے بنایا ہے اور اپنے شوہر کے نام پر وقف کیا ہے۔ تاکہ ان کو اس ادارے کی وجہ سے ثواب ملتا رہے ۔ یہ تھی سچی محبت ورنہ اس پیسے سے وہ ایک عالیشان گھر بھی بناسکتی تھی۔ لیکن انہوں نے سوچا محبت کے مقابلے میں عالیشان گھر کی کیا حیثیت؟
بنگلہ تو عارضی چیز ہے البتہ یہ اسلامی ادارہ ان کو اور ان کے شوہر کو آخرت میں نجات کا باعث بن جا ئے گا۔ جب بیٹا سعودیہ واپس آیاتو اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا۔ تمام بھائی اس رات جاگتے رہے ۔ اور ایک رات پانچ ملین ریال اپنے والد مرحوم سے منسوب اس ادارہ کےلیے چندہ جمع کیا۔ جس کو ان کی دوسری ماں نے ان کے والد سے بے لوث محبت کی بنیاد پر قائم کیا تھا۔ رئیس باپ کی اولادیں وراثتی رقم کے حصول کے اپنے والدین کے مرنے کا انتظار کرتی ہیں۔ اور جو سچی محبت کرتے ہیں۔ اپنے مرنے والے کو توشئہ آخرت بھیجنے کی فکر میں رہتے ہیں۔
Leave a Reply