لڑکی دو بچوں کے باپ سے شادی پر راضی نہیں تھی وہ بہت خوبصورت اور امیر تھا مگر اسکی بیوی م۔رچکی تھی

وہ تیز قدموں سے چل رہی تھی اسے منزل پر پہنچے کی جلدی تھی۔وہ شہر کی معروف اکیڈمی میں پڑھاتی تھی مگر اس کے باوجود اس کے اہل خانہ کے اخراجات پورے نہ پاتے تھے ۔ اس لیے اس نے ایک اشتہار کے مطابق بطور ٹیچر اپلائی کیا اور پھر کرنا ایسا ہوا کہ وہ منتخب بھی ہوگئی تھی ۔کسی بنگلہ میں جاکر دو بچوں کو ہوم ٹیوشن دیتی جس کا بہت معقول معاوضہ بھی تھا۔ وہ اس لیے خوش تھی کہ اس طرح اس کے چھوٹے بھائی رضا کی تعلیم میں حرج نہ ہوگا اور چھوٹی بہن انعم کی شادی بھی آرام سے ہوسکے گی ۔ اس کے والدین حیات تھے

اس کے والد کا روڈ ایک۔سی۔ڈنٹ میں معذور ہونا ایک بہت بڑا سانحہ تھا ۔ جو سارے خاندان کو سوگوار کرگیا تھا۔ کنول نے اس حادثے کو زیادہ شدت سے اس لیے بھی محسوس کیا تھا کیونکہ وہ گھر کی بڑی تھی اس نے ہی اب سارے گھر کی کفالت کا ذمہ اٹھایا اور اس سلسلے میں وہ جاب ہی کرسکتی تھی اس نے وقتی طور پر جہاں اورجیسی او رجتنے معاوضہ پر بھی ملازمت ملی اس نے بخوشی کی مگر اس کے باوجود گھر کے اخراجات منہ کھولے کھڑے تھے وہ مجبور تھی باپ کی آنکھوں میں امڈتی بے بسی اس کے دل کے اندر تک توڑ پھوڑ دیتی تھی مگر اس نے ہمیشہ اپنے آنسوں باپ کے سامنے پی لیے تھے اس کے والد کو اس کے کسی غم کا ٹھکن کا احساس نہ ہوجائے ۔ وہ ایک فرماں بردار بیٹی تھی اس نے وقت مقررہ سے پندرہ منٹ لیٹ ہوجانے پر خود کو خوب کوسا تھا ۔ آج اس کا پہلا دن تھا اور وہ اتنی لیٹ ہوگئی تھی اس کا پہلا تاثر ہی غلط بیٹھا تھا ۔ سامنے لان میں دوصحت مند سرخ وسفید بچے بیٹھے تھے جو کتابیں کھولے پڑھنے میں مصروف تھے اس پر نگاہ پڑتے ہی مود ہوکر بیٹھ گئے تبھی اس کے عقب سے ایک مرد جو بے حد وجیہہ پروقار تھا۔ کڑی نظروں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا بعض نگاہیں اتنی تیز ہوتی ہیں کہ انسان کو لگتا ہے کہ وہ آرپار بھی دیکھ لینے پرقادر ہوں وہ اس کو پل بھر میں تولتی نظروں سےدیکھ کرگویا ہوا۔

میرے بچوں کو وقت کی پابندی کا سبق میں نے بخوبی پڑھایا ہے اگر آج وہ وقت کی پابندی نہ کریں گے توپھر کیا سیکھیں گے زندگی میں ۔ آپ خود ہی ان اصولوں پر عمل پیرا نہ ہوں گی تو پھر بچے کیا خاک سیکھیں گے ۔ وہ اس کے انداز پر بے حد بوکھلا سی گئی تھی وہ اتنا خوف ناک نہ تھا ۔ جتنے خوف ناک اس کے تیور تھے دیکھنے میں تو وہ ایک معقول اور مہذب سا بند ہ تھا جو بلامبالغہ حسین واقع ہوا تھا شاید بچے اس پر ہی گئے تھے گول مٹول سے بچے تھے ۔ آپ کی پہلی غلطی جان کر چھوڑ رہا ہوں۔ امید ہے آئندہ شکایت کا موقع نہیں دیں گی ۔اس نے ابھی معاذرت کیلئے لب کھولے ہی تھے کہ وہ اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔ وہ جلد ہی بچوں سے گھل مل گئی تھی ۔آج ہم ماں پر مضمون لکھیں گے ۔ وہ آہستہ سے بولی جب اس کی نگاہ اداس چہروں پر پڑی تو وہ ایک دم سے چپ ہوگئی تھی پھر اسے خود ہی اپنی بات کی سنگینی کا احساس ہوا تھا ۔ فریدوں بے حد سخت گیر مگر اولاد کے معاملے میں نرم دل واقع ہوئے تھے ۔ انہوں نے بچوں کی تربیت بھی احسن طریقہ پر کی تھی ۔ انہوں نے ہی بتایا تھا کہ وہ دونوں ماں کی مامتا سے محروم ہیں مگر والد نے ان کو کبھی ماں کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا ۔ ہر ضرورت ہر خواہش کا خیال رکھتے تھے مگر پھر بھی بسا اوقات یاسر اور ناصر ماں کی تشنگی محسوس کرتے تھے ۔مگر والد کے سامنے کبھی اظہار نہیں کیا وہ پریشان نہ ہوجائیں ۔

آج جب مضمون کا عنوان ماں تھا تو پھر ان کے چہرے ادا س تھے ۔ وہ بچوں کو سمجھا رہی تھی تبھی فریدوں کی آمد ہوئی تھی کنول اس کی آمد سے بے خبر تھی وہ بولتی چلی گئی ۔ اگر آپ یوں اد اس ہوں گے تو آپ کے پاپا جانی بھی ادا س ہوجائینگے ۔ کنول نے مسکرکر کہا تو بچے بھی مسکرادیے ۔ اسلام علیکم بچوں کیسے ہو فریدوں نے زوردار انداز میں سلام کیا تو وہ بھاگ کر باپ سے لپٹ گئے وعلیکم السلام فریدوں نے بچوں کو پیار کیا۔اب آپ کی چھٹی ہے آج دونوں جلدی فارغ ہوگئے ہیں امید ہے اب تک ہوم ورک مکمل ہوگیا ہوگا۔ فریدوں نے مسکرا کر کہا تو وہ ایک جانب منتظر نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔ جی ہوم ورک تقریباً مکمل ہے سوائے نجانے وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی شاید اس مضموں کے حوالے سے وہ سمجھ گیا تھا۔ میں باقی کام مکمل کرادوں گا ۔ آپ کیسے جائیں گی ؟ فریدوں نے شام کے ڈھلتے سائے دیکھ کر پر سوچ انداز میں کہا ۔ جی میں خود چلی جاؤں گی ۔ وہ زمانے کا سردو گرم اور بری تیز نظروں کی گرمی کو بھی سمجھتا تھا اس لیے وہ اس اچھی اور معصوم لڑکی کو اس گرداب میں دھنسنے سے بچانا چاہتا تھا۔ راستے میں سب خاموش سے تھے فقط دو مرتبہ گھر کا راستہ سمجھانے کی غرض سے کنول نے لب کشائی کی تھی ۔ اب گھر کے سامنے کار رک چکی تھی مگر وہ متذبذب تھی کہ وہ ان کو گھر مدعو کرے جبکہ وہ خود کنول کے گھر جانے سے گریز کرنا چاہتا تھا ۔

وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ذات کنول کیلئے مسئلہ بن جائے ۔ وہ مطمئن سی گھر میں داخل ہوئی تھی جب گیٹ پر ہی عدیل سے سامنا ہوگیا تھا۔ عدیل اس کا چچازاد بھائی تھا جو صرف زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے کھرچنے آتا تھا۔اتنی دیر سے آتی ہو خیر تو ہے ؟شبانہ چاچی نے کرخت لہجے میں کریدا ۔ اماں دیر سویر کی تو جانے ہی دو یہ موچھو محترمہ آکس کے ساتھ رہی تھیں۔عدیل نے مزید لقمہ دیا وہ گھبرا سی گئی تھی اس نے گھبرا کر اپنی ماں کو دیکھا اب کے چچی جان بھی خوب بری طرح چونکی تھیں ۔ مجھے ان بچوں کے والد صاحب گھر چھوڑنے آئے ہیں کیونکہ شام ہوچکی تھی ۔ ان موصوف کو کیوں تم سے ہمدردی کا بخار چڑھا ہے کہیں یہ بخار کوئی اور رنگ نہ اختیار کر جائے چچی جان نے زہر خند لہجے میں کہا کیوں بھئی یہ سب کیا معاملہ ہے اب زاہد چچا بھی کود پڑے تھے ۔ یا اللہ یہ کیسے میرے اپنے ہیں جو درد دینے سے بھی گریزاں نہیں ہوتے ۔ بے بسی سے آنسو اس کے رخساروں پر ڈھلک تھے ۔ جب کنول نے راشدہ بیگم کا شکریہ ادا کیا تو وہ مسکرا کر بولیں جی سر بہت اچھے ہیں۔ فقط شکر گزاری کے عکس تھے پھر وہ مطمئن سی ہوکر سرہلا کر رہ گئی تھیں ۔ ٹیچر آج ہمارا پڑھنے کا بلکل بھی موڈ نہیں پھر کل سنڈے بھی ہے ہم کل سارا ہوم ورک کرلیں گے ۔

تم لوگ ہوم ورک کرو تھوڑی دیر پڑھ لو پھر ہم سب مل کر شام کی چائے پئیں گے خوب باتیں کریں ۔ پھر راشدہ بیگم کے اصرا ر کے سامنے وہ انکار نہ کرسکی تھی ۔ ارے واہ آج تو خوب رونق لگی ہوئی ہے ۔ فریدوں کے لہجے میں بشاشت تھی ۔ جی آج ہماری موسٹ فیورٹ ٹیچر جی ہمارے گھر پر ہیں ۔ایک دم چہار سو خاموشی چھاگئی تھی ۔ کنول کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھلک گیا تھا وہ بری طرح پزل ہوگئی تھی ۔ بیٹا ٹیچر کیسے یہاں رہ سکتی ہیں ان کا اپنا ایک گھرانہ ہے ۔ فریدوں نے چھوٹے سے ناصر کو خوش کرنا چاہا تھا وہ منہ پھلا کر چپ ہوگیا تھا ۔ واپسی پر جب فریدوں نے اسے گھر تک ڈرا پ کرنا چاہا تو اس ے گھبرا کر انکا کردیا تھا ۔ وہ فیصلہ کن لہجے میں بولی تو فریدوں نے ڈرائیور کے ساتھ اسے روانہ کردیا ۔ سر مجھے چند دنوں کیلئے چھٹیاں چاہئیں وہ فریدوں کے سامنے درخواست لیے کھڑی تھی ۔ کسی وجہ سے فریدوں نے پوچھا میری چھوٹی بہن کی منگنی کو سال ہوچلا ہے اب ہم چاہتے ہیں کہ اس کی شادی ہوجائے ۔ لیکن بڑی تو آپ ہیں ۔ کنول کا رنگ اچانک سفید پڑ گیا تھا وہ انگلیاں چٹخا رہی تھی ہم جیسی لڑکیاں اپنے خوابوں کو آنکھوں کی باڑ تک نہیں آنے دیتیں۔ جی آپ چھٹی لے سکتی ہیں۔ کیا ہم سب کو مدعو نہیں کریں گی فریدوں نے بات کا رخ پلٹا کیوں نہیں آپ تو مہمان خصوصی ہوں گے ۔ پیلے جوڑے میں ملبوس کنول لمبی چٹیا بنائے ہلکا سا میک اپ کیے بے تحاشا حسین لگ رہی تھی ۔ یاسر اور ناصر کی ضد تو تھی ہی خود راشدہ بیگم نے بھی پہلی مرتبہ فرمائش کی تھی کنول کے والد ان سے مل کر بے حد خوش ہوئے ۔

آج کنول اتنی پیار ی لگ رہی تھی کہ راشدہ بیگم اسے کسی اور ہی نظر سے دیکھ اور تول رہی تھیں اگرچہ وہ کم عمر لڑکی تھی مگر ذمہ داریاں نبھانا جانتی تھی ۔ راشدہ نے جاتے جاتے کنول کی امی کے کان میں اپنی بات کا عندیہ دے دیا تھا ۔وہ سب تو خوش ہی نہیں محوحیرت تھے ۔ اتنے امیر کبیر لوگ اور رشتہ داری کے طلبگار تھے ۔ انہوں نے رضا کی تعلیم کا خرچ گھر کی کفالت کا ذمہ بھی خود لینے کی بات کی۔اب کنول کی شادی ہو اس سے بڑھ کر ان کیلئے خوشی کی کیا بات ہوسکتی تھی ۔ مگر کنول نے انکار کرکے سب کو حیران کردیا ۔ میں نہیں چاہتی ساری عمر کسی کی ہمدردی کے بوجھ تلے گزاروں۔ مگر والدین کی مجبوریوں نے اس کی محبت کو گرہن لگادیا تھا ۔ اس نے اپنے والدین کی رضا کی خاطر خاموشی سے سرتسلیم خم کرلیا ۔ یاسر اور ناصر بے حد خوش تھے ۔لیکن وہ اداس تھی

جب راشدہ بیگم نے اسے فریدوں کے بیڈ روم میں بھیج دیا تھا بیٹا تمہیں تو کسی نصیحت کی ضرورت ہی نہیں۔ تم بے حد سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک ہو ۔تم فریدوں کے مزاج کو بخوبی سمجھتی ہو اتنی سی نصیحت کرنا چاہتی ہوں قدم اٹھاؤ ہر معاملے میں اپنے میاں کی رائے کو فوقیت دینا زندگی سنور جائیگی ۔ وہ سرجھکائے بیٹھی جب فریدوں نے کمرے میں قدم رکھا تھا ۔ کیسی ہیں آپ ہمیشنہ کی طرح نرم لہجہ لیے وہ ہمہ تن گوش تھے ۔ میں جانتی ہوں اب آپ مجھ سے کیا کہیں گے قبل اس کے میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں کہ میں اس سمجھوتے بھری زندگی کو بسر کرنے کیلئے تیار ہوں۔ دل سے آپ کی احسان مند بھی ہوں۔تم سے کس نے کہا کہ میں سمجھوتا کروں گا ۔ تم جانتی ہو عالیہ میری پہلی بیوی حیات ہے ۔ سوشل ایکٹیوٹیز کی خاطر مجھے بچوں کو چھوڑ دیا ۔ تمہاری توجہ سے میرے بچے کھل گئے تھے اصل وجہ وہ بھی نہیں زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے محسوس ہوا کہ مجھے بھی کسی سے محبت ہے اور وہ تم ہو وہ مسکرا کر سرجھکا گئی تھی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *