میرا سوداہوگیا ہے اور اب میں خریداروں کے حوالے پیروں تلے زمین نکل گئی میں چپ چاپ اسکے ساتھ چلی گئی

مجھے اپنے باپ کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا ابھی چھوٹی سی تھی کہ امی بھی بھری دنیا میں تنہا چھوڑ کر چل بسیں شاید کہ وہ میرا بوجھ بہت زیادہ دیر تک نہ اٹھا سکتی تھی اس لیے ابتدائی دنوں میں ہی میں دنیا کی ٹھوکروں میں آ گئی تھی ایسے بچوں کے ساتھ زمانہ جو سلوک کرتا ہے وہی میرے ساتھ ہونے لگا کبھی ایک رشتہ دار اور کبھی دوسرے گھر پر پرورش پانے لگیں ان کے بھرے گھر میں ایک یتیم بچی کی جگہ نہیں نکل سکتی تھی مستقل ذمہ داری قبول کرنے کو کوئی تیار نہ تھا ماں کی ایک رشتہ دار کو ترس آگیا صباحت خالہ مجھے اپنے گھر لے آئیں

اگر چہ سگے ماموں خالائیں بھی نہ موجود تھے لیکن کسی نزدیکی رشتہ دار نے مجھے گود نہ لیا صباحت خالہ امیر نہیں تھی۔ بس سلائی کر کے میری پرورش اچھے طریقے سے کرنے لگی یوں وقت گزرتا گیا اور میں 16 برس کی ہوگئی خالہ خود قسم پرسی کی زندگی جی رہی تھی لہذا ان کا سماج میں خاص مقام نہ تھا میرے لیے کسی اچھے گھر سے رشتہ کہاں سے آتا وہ شریف سیدھی سادی حلیم الطبع خاتون تھیں۔ محلے پڑوس کے لوگ جہاں ان کی عزت کرتے تھے وہاں روپیہ پیسہ نہ ہونے کے سبب انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا ہت کی تقریبات میں صرف اس وجہ سے کیا جاتا تھا کچھ کاموں میں ہاتھ بٹا دیں گے مجھ میں دیگر خوبیاں خالہ کی تربیت سے آئی تھی لیکن ایک خوبی پروردگار نے اپنی مہربانی سے عطا کی تھی کہ میری شکل و صورت بہت اچھی بنائی تھی ذرا بڑی ہوئی تو میری خوبصورتی کا تذکرہ ہونے لگے شکل اچھی ہو لڑکی لاوارث ہوں تو زمانے کی نظروں میں بھٹکنے لگتی ہے میں بھی اوباش نوجوانوں کی نگاہوں کی زد میں آ گئیں۔ وہ چیلوں اور کوؤں کی مانند میرے گرد منڈلانے لگےصباحت خالہ نے اسی محلے میں عمر گزاری تھی

بیوی کے بعد شرافت سے محنت مزدوری میں جیون بتا دیا تھا لہذا کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی مجھ پر انگلیاں اٹھانے کی خالہ نے مجھ کو ک۔ڑی نگرانی میں پالا تھا ابھی میں نو برس کی تھی کہ میرا اکیلے گھر سے نکلنا بند کرا دیا جہاں خود جاتی ساتھ لے جاتی لینے نکلتی تو مکان کے بیرونی دروازے کو باہر سے تالا لگا دیتی بچپن میں خود سکول چھوڑنے اور لینے جاتی تھی مجھے زمانے کی سمجھ نہیں آتی کی عمر ہی کتنی تھی خالہ نے خود تکلیف نہ سہی مگر مجھے استبداد زمانہ سے بچائے رکھاگھر کی کھڑکیوں سے جھانکنے بھی نہ دیتی تھی میری کوئی سہیلی نہ تھی وہ خود ہی میری ماں تھی اور خود سہیلی تھی ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ اتنی باشعور تھی کہ فارغ وقت میں مجھے وقت دیتیں تاکہ میری روح کو خوشی اور سکون کے لمحا میسر ہوں۔ہر عمر کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں بے شک آٹھویں کے بعد گھر بیٹھ گئی تھی لیکن اب دنیا دیکھنا چاہتی تھی گھر کی کوئی کھڑکی کھلی ہوتی تو چھت سے جھانک کر محلے کا نظارہ کرنے کی خواہش دل میں انگڑائی لینے لگتی ایک روز خالہ سو رہی تھی چھت پر چڑھ کر میں گلی کا نظارہ کر رہی تھی کہ ایک اوباش لڑکے کی مجھ پرنگاہ اٹھ گئی بس پھر کیا تھا اس نے تو گلی میں جیسے ڈیرہ جما لیا جب خالہ کسی کام سے نکلتی ہیں وہ ہمارے گھر کے نزدیک موجود ہوتا اس لڑکے کا نام کبیر تھا وہ چھٹا ہوا بدمعاش تھا

خالہ کی چھٹی حس نے خطرے کا الارم دے دیا اور وہ پریشان رہنے لگی اب ان کو احساس ہو گیا کہ یتیم بچی کو پالنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا اس کو اپنے گھر کا کرنا یہ کام بیوہ خالہ کے لئے دشوار تھا محلے کے مختلف گھروں میں جا کر انھوں نے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ ان کی بیٹی کیلئے رشتہ ڈھونڈا جائے کہ وہ چین کی نیند سو سکیں آخر ایک پڑوسن نے مسئلہ حل کیا اس نے خالہ کو تسلی دی کہ ان کی بھانجی لاہور میں ان رہتی ہے اور وہ رشتے کرانے والی ایک عورت کو جانتی ہےفون پر کچھ دن بھانجی سے رابطہ کرنے کے بعد روس نے خوشخبری دی تھی کہ ایک اچھے گھرانے کا رشتہ مل گیا ہے وہ جلد ہی لڑکی کو دیکھنے آ رہے ہیں ہفتہ بعد پڑوسن نے خوشخبری دی کہ کل وہ لوگ لاہور سے میرے یہاں پہنچیں گے گے۔ خالہ صباحت نے کہا بہن تم ہی ان لوگوں کو ٹھہرانے اور مہمان داری کا انتظام کرنا رشتے کا معاملہ ہے میرے گھر میں تو بٹھانے کی مناسب صزفائی بھی نہیں ہے۔ اور نہ اچھے برتن ہیں۔ پڑوسن نے کہا تم فکر نہ کرو صباحت تمہاری بیٹی میری بیٹی ہے میں ہی ان لوگوں کو ٹھہراؤ گئی اور میں ہی ان کی خاطر تواضع کروں گی تمہارے گھر بس وہ بچی کو ایک نظر دیکھنے آئیں گےخبر ملی کے لاہور والے مہمان آ پہنچے ہیں خالہ نے مجھے پہنانے کو جو سب سے عمدہ جوڑا جو ان کی نظر میں تھا وہ نکال دیا

اور گھر کی خوب صفائی ستھرائی کی۔بس وہ یہی اہتمام کر سکتی تھی۔ لڑکا پڑوس میں بیٹھا تھا اور اس کی ماں ہمارے گھر مجھے دیکھنے آئی اس نے پہلی نظر میں پسند کر لیا لاکھوں میں ایک تھی اور یتیمی کی سوا مجھ میں کوئی عیب نہ تھا۔محلے والے ڈر رہے تھے کہ انجان لوگوں میں رشتہ ہوگیا خالہ کا دل بھی ڈرتا تھا مگر پڑوسن نے کہا یہ اچھے اور شریف لوگ ہیں گھبراؤ نہیں والدین تو صرف بر دیکھتے ہیں قسمت نہیں بنا سکتے دعا کرو تمہاری بیٹی کے نصیب اچھے ہوں وہ شادی کی تاریخ رکھ کر چلے گئےرخصتی کے لیے تین ماہ کی مہلت مانگی تھی اس دوران پڑوسن کی مدد سے میرے جہیز کے چند جوڑے اور کچھ برتن وغیرہ خرید لیے گئے حالانکہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ ہم کو جہیز کی قطعی ضرورت نہیں ہے اللہ کا دیا سب کچھ ہے شادی والے روز محلے میں چند خواتین آئیں مگر سب ہی اس شادی پر مشکوک تھیں کہ انجانے لوگوں میں دور شہر سے رشتہ آیا تھا کافی اندیشے تھے مگر خالہ سے کسی نے کچھ نہ کہا کہ وہ صباحت بی بی کی ہمت کے معترف تھے جنہوں نے عذاب سہہ کر مجھے پالا پوسا تھا کوئی رشتہ دار اعتراض نہیں کر سکتا تھا جبکہ ضرورت کے دنوں میں وہ لاتعلق رہے تھے۔شادی کے گھر میں ہو کا عالم تھاجو عورتیں آئی تھی وہ بھی خاموش تھیں جب دلہا گھر میں آ یا تو دیکھنے والوں پر بجلی گر گئی یہ شخص کسی طور سے میرے جوڑ کا نہ تھا

عمر بھی چالیس برس سے اوپر تھی پختہ سن تھا جبکہ میں ابھی بچی تھی تاہم تمام لڑکیوں سے زیادہ سمجھدار تھی نکاح اور گواہوں کے انتظامات بھی پڑوسیوں نے کیے تھےکچھ محلے دار میری شادی میں آئے لیکن ہر چہرہ سوچ میں ڈوبا تھا انہیں لگتا تھا کہ بیچاری بیوہ اور اس کی یتیم لے پالک بچی کے ساتھ شادی کے نام پر ضرور کوئی فراڈ ہوا ہے لیکن اخلاقی جرت کسی میں نہ تھی سب کہتے ٹھیک ہے اگر شادی کے عین وقت معاملہ گڑبڑ ہو گیا تو تمام ذمہ داری ان پر پڑ جائے گی پھر کون کب مجھے ڈھولی پر چڑھائے گا ۔سبھی نے یہی سوچا کہ اللہ مالک ہے جو ہو رہا ہے ہونے دو شام کو نکاح ہوا اور9 رات بجے بارات رخصت ہو گئی لڑکے کا گھر لاہور کے نزدیک کسی نواحی گاؤں میں تھا انہوں نے ولیمے کی دعوت دی مگر ل۔ڑکی والوں کی طرف سے کوئی نہ گیا شادی کے بعد مشتاق نے کئی بار خالہ سے بات کرائیں فون پڑوسن کے گھر تھا وہ خالہ کو بلوا لیتی اور میں بات کرتی تھی خالہ پوچھتی کیا حال ہے تم خوش تو ہو اور میں جواب دیتی کہ سب ٹھیک ہے آپ فکر مند نہ ہوں یوں تو سب ٹھیک تھا لیکن مشتاق کی صورت شکل اور عمر سے یہ رشتہ میرے جوڑ کا نہ تھا۔ میں نے سوچا شکل کا کیا کرنا تحفظ اور مضبوط پناہ گاہ تو ہےمیں اطاعت گزار تھی خالہ نے تربیت ہی ایسی دی تھی ہر طرح کے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت موجود تھی لیکن گھر کا ماحول گھر جیسا نہ تھا بلکہ عجب طرح کا ماحول تھا ۔

جلد ہی اس فضا میں دم گھٹتا محسوس ہونے لگا میں نے عورت سے نزدیک ہونے کی کوشش کی ہے ۔مگر اس نے فاصلہ رکھا وہ مجھ سے دور رہنے کو بہتری سمجھتی تھی۔ یہ وہی عورت تھی جو پہلے مشتاق کی ماں بن کر آئیں پھر مشتاق نے بتایا کہ اس نے مجھے پالا ہے لہذا احترام میں ماں کہتا ہوں اور یہ ماں نہیں بلکہ میری ملازمہ ہے۔اس کا نام صفیہ بی بی تھا وہ ایک دن کھانا پکا رہی تھی کہ دوپٹے میں ا۔گ لگ گئی میرے سوا کوئی نہ تھا میں نے دوڑ کر جلتی اگ کو ہاتھوں سے مسل مسل کر اگ بجھائی جس سے میرے ہاتھ جل گئے مگر اماں صفیہ جل مرنے سے بچ گئی۔تاہم قمیض کے ایک حصے کو اگ نے کندھے کے پاس راکھ کر دیا اور بدن پر آبلے پڑ گئے۔اماں صفیہ کی میں نے اچھی طرح سے دیکھ بھال کی اور ان کے زخ۔م جلد بھر گئے میرے ایثار پر وہ بے حد مشکور ہوئی۔اب میں ان کو ملازمہ نہیں اماں صفیہ کہہ کر بلاتی تھی اور وہ بھی مجھے ماں کی طرح چاہتی تھی شادی کے دو ماہ بعد مشتاق کے پاس کچھ لوگ کراچی سے مہمان بن کر آئے تو ان کو دیکھ کر نہ صرف یہ بے حد پریشان ہوگئی میں سمجھی کہ ماں کے زخ۔م ابھی تکلیف کرتے ہیں وہ کھانے پکانے سے پریشان ہو رہی ہے تب میں کچن میں خود مہمانوں کا کھانا تیار کرانے میں ان کی بھرپور مدد کرنے لگی۔یہ بات صحیح ہے کہ مشتاق میرا بہت خیال رکھتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ میں گھرکے کسی کام کو ہاتھ لگاؤں اچھا کھانا اور آرام مجھے میسر تھا تبھی میں پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی رنگ روپ تھا کہ نکھرتا جاتا تھا ایک روز مشتاق نے کہا تم اپنی خالہ کے لئے اداس ہو گئی ہو گی چلو تم کو ملاتا ہوں

میں ملتان جانے کو تیار ہوں گئی میرا جی بھی اداس تھا کیوں نہ ہو تاکہ خالہ صباحت نے تو مجھ کو ماں بن کر پالا تھا۔جب میں جانے کو تیار ہونے لگی تو اماں صفیہ بہت زیادہ پریشان ہو گئی جیسے کہ مجھے کسی مصیبت کے منہ میں جاتے دیکھ رہی ہوں۔ بولی یہ شخص جو تمہارا نام نہاد شوہر بنا ہوا ہے یہ عورتوں کا دلال ہے غریب اور بے سہارا لڑکیوں کو ایسے ہی پھانستا ہے اور پھر ان کا سودا کرکے ان کو بیچ دیتا ہے ۔میں چپ چاپ اس کے ساتھ چلی گئی وہ مجھے ویٹنگ روم میں بٹھا کر کر خود ٹکٹ لینے چلا گیا کیونکہ ریل گاڑی کے آنے میں کچھ وقت تھا۔میں پریشان بیٹھی کہ ایک عمر رسیدہ مسافر خاتون جو کسی اچھے گھرانے کی لگتی تھی مجھ سے پوچھنے لگیں کیوں پریشان ہو کہاں جا رہی ہو۔اس وقت ویٹنگ روم میں اس کے اور میرے سوا کوئی نہ تھا۔میں نے ہمت کر کے اپنے حوالے سے آگاہ کرکے مدد کی درخواست کی اس کے بیگ میں برقعہ تھا اس نے کہا کہ میری بیٹی نے فرمائش کی تھی اس نے خریدا ہے تم پہن لو اور ابھی میرے ساتھ اسٹیشن سے باہر نکلو ورنہ تمھارے بچاؤ کا اس کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہے اس نے میری خاطر اپنا سفر ملتوی کردیا۔میں نے عورت کی ہدایت کے مطابق عمل کیا اور ہم دونوں اسٹیشن سے باہر آ گئی۔عورت نے ٹیکسی لی اور مجھے اپنے ٹھکانے پر لے آئیں یہاں آ کر معلوم ہوا کہ وہ عورت بھی صحیح نہیں ہے اور اس کی دو بیٹیاں ہیں جو اسٹیج ڈراموں میں کام کرتی ہیں

گویا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔لیکن میرا خیال غلط ثابت ہوا اس کا تعلق اسٹیج ڈراموں سے ضرور تھا مگر وہ عورت بری نہیں تھی اس نے میری خالہ کا نمبر مانگا میں نے پڑوسن کا نمبر دیا تھا انہوں نے فون کیا اور بتایا کہ خالہ کو اچانک دل کا دورہ پڑا تھا اور کل رات ان کا انتقال ہوگیاہے تمہارے شوہر کو فون کرتے رہے مگر ان کا فون بند ملا۔پڑوسن کی بات سن کر میں رونے لگی خوب جی بھر کر رو لیں تو ستارہ خانم نے کہا بیٹی اب تمہاری کیا مرضی ہےکہاں جانا چاہتی ہوں جہاں کہتی ہوں تم کو پہنچا آتی ہوں میں نے جواب دیا نہیں میں کیا بتاؤں اس دنیا میں اب آپ کے سوا میرا کوئی نہیں اچھا تو پھر میرے پاس رہ جاؤ میری دو بیٹیاں ہیں تیسری تم ہوگی ستارہ خانم کا اخلاق اتنا اچھا تھا کہ میں ان کی بیٹی بن کر ان کے گھر میں رہنے لگی پہلے تو کہیں آتی نہ تھی یہ بیٹیوں کے ساتھ اسٹیج ڈراموں میں پرفارم کرنے چلی جاتی تھی جب کہ میں ان کا کھانا پکاتی تھی اور گھر کا کام کر دیتی تھی۔رفتہ رفتہ ان کے مشاغل میں دلچسپی لینے لگیں اور ساتھ جانے لگی ایک روز ایک فلم پروڈیوسر کی نظر مجھ پر پڑ گئی تو انہوں نے خانم سے اصرار کیا کہ لڑکی کو فلم میں کام کرنے دو یہ بہت مشہور فلمسٹار بنے گی۔یہ اگر خود چاہے گی تو روکو گی نہیں اگر نہیں چاہے گی تو اس کام کےلیے زبردستی نہیں کروں گی یہ ایک شریف گھرانے کی بچی ہے اور میری پناہ میں ہے۔

میں اس کے لیے کسی اچھے گھرانے کا رشتہ تلاش کر رہی ہوں تاکہ اپنے گھر کی ہو جائے اور عزت کی زندگی گزارے۔ فلم پروڈیوسر گویا کے مایوس ہوا مگر اس کے دل کو خانم کی بات لگی اس نے کوشش کرکے میرا رشتہ تلاش کیا تو خالہ کو بتایا اور میری شادی ایک متوسط شریف گھرانے میں ہوگئی۔یہ بہت اچھے لوگ تھے انہوں نے میری قدر کی شوہر کا ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور تھا اور گزارا ٹھیک ہو رہا تھا ساس اور نند کے علاوہ دو چھوٹے دیور تھے جو پڑھ رہے تھے شام کو میرے شوہر کے ساتھ جنرل سٹور پر ان کا ہاتھ بٹاتے تھے اور محنتی تھی جلد ہی کاروبار میں ترقی کی۔کچھ زمین دیہات میں تھی گاؤں کے لوگوں نے وراثت کے کاغذات نکلوائے تو میرے شوہر کے بہن بھائیوں کے نام زمین نکلی جو ان کو مل گئی اس کو بیچ کر انہوں نے روپیہ کاروبار میں ڈالا اور دکان بڑی کرلی اب دولت بھی گھر میں آنے لگی۔میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش و خرم آباد ہوگئی۔ اللہ نے گویا میری سن لی تھی سال بڑے سکون سے بسر کیے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ایک روز میرے شوہر دکان کا مال لینے کراچی گئے

تو فس۔ادات کا شک۔ار ہوگئے اور میرے نصیب پر ایک بار پھر سے سیاہی پھر گئی۔چند دن سسرال والوں نے رکھا پھر ان کا سلوک میرے لیے مشفقانہ نہ رہا میری ساس نے کہا میری نحوست سے ان کے گھر میں تباہی آئی ہے ان کا رویہ ناقابل برداشت ہوگیا تو میں نے ستارہ خانم کو فون کر دیا وہ مجھے اپنے پاس لے آئیں۔وہ فلم پروڈیوسر اب بھی ان کے گھر آتا تھا ان کی بیٹیاں اس کے ساتگ فلموں میں چھوٹے موٹے رول کرنے لگی تھی۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پھر سے فلم میں کام کرنے کی آفر کی۔ کےاس بار کہنے پر خالہ نے بھی کہا کہ تم قسمت آزمائی کرو وہ صاحب بار بار اصرار کر رہے ہیں کیا خبر تم پر دولت اور شہرت کے در وا ہو جائیں اور میرے بھی دن پھر جائیں۔ میرا بھی کوئی نہ تھا جس کا پالن کرتی میں نے خانم اور پروڈیوسر صاحب کا کہنا مان لیاشروع میں ایک دو چھوٹے رول دیے جو میں نے خوش اسلوبی سے نبھائیں تو انہوں نے ایک فلم میں سائیڈ ہیرو کا رول دلوا دیا فلم بے حد کامیاب رہی اس کے بعد تو فلموں کا تانتا بندھ گیا۔خانم کی سرپرستی میں چند فلمیں کی جوہٹ ہوگئی اور میں ایک نامور اداکارہ بن گئی۔

شاید قدرت کو یہی منظور تھا دولت اب میرے گھر کی باندی تھی اور شہرت میرے قدم چوم رہی تھی۔ میری دولت کی کل مختار میری سرپرست خانم بن گئی انہوں نے میرے لیے گاڑی لی اور ایک عالیشان گھر خریدا میری قدر کی دل سے میری مدد کی تو میں نے بھی دل سے ان کے ساتھ پیار کیا۔ان کو ماں کا درجہ دیا کیونکہ ان کا اپنا من خوبصورت تھا۔ جب تک وہ زندہ رہیں میرا خیال ایک ماں کی طرح کرتی رہیں ان کے انتقال کے بعد مجھ کو محسوس ہوا کہ میں پھر سے اس دنیا میں اکیلی ہو گئی ہوں۔ اب میں سمجھدار اور تجربہ کار تھی اور دنیا کو جان پہچان گئی تھی اچھے برے کی تمیز ہو چکی تھی میری زندگی میں ایک شخص آیا جو مجھ سے بے غرض پیار کرتا تھا میں نے بطور جیون ساتھی اس کو منتخب کر لیا اور فلم لائن کو خیر آباد کہہ کر اپنا گھر بسا لیا۔کچھ عرصے بعد ہم بیرون ملک شفٹ ہو گئے جہاں ان کی آمدنی اچھی ہے اور ہم پرسکون اور خوش و خرم زندگی اپنے بچوں کے ساتھ بسر کر رہے ہیں آج اپنی زندگی پر شکر کرتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ خدا جب چاہے جہاں چاہے پہنچا دے انسان کے بس میں کچھ نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *