ایک شہزادی نے اعلان کیا کہ جو شخص میرے تین سوالات جواب دے گا

ایران کا بادشاہ بہت دنوں سے پریشان تھا یوں تو ہر طرف خوش حالی کا دور تھا مگر بادشاہ کی پریشانی کی وجہ اس کی اکلوتی بیٹھی تھی ہر باپ کی طرح بادشاہ بھی اپنی بیٹی کی شادی کر کے اپنا فرض ادا کر نا چاہتا تھا۔ لیکن شہزادی نے بھی عجیب اعلان کر رکھا تھا جو شخص شہزادی کے تین سوالوں کے جواب دے گا شہزادی ا س سے شادی کر یں گی

آس پاس کی ریاستوں کے کئی شہزادے آئے مگر سب کے سب ناکام ہو گئے اس ملک میں ایک نوجوان رہتا تھا جس کا نام اعظم تھا اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ بھی اپنی قسمت آزما نا چاہتا ہے اعظم کے والد ایک عالم تھے اور برسوں سے لوگوں میں علم کی روشنی بانٹ رہے تھے۔

ملک فارس کا وزیر اعظم بڑ ے بڑے درباری اور اس شہر کا قاضی بھی ان کا شا گر د تھا باپ نے بیٹے کی خواہش دیکھی تو بو لے بیٹا اگر تم نا کام لوٹے تو تیرا کچھ نہیں جا ئے گا لوگ کیا کہیں گے کہ ایک عالم کا بیٹا نا کام ہو گیا۔اعظم اپنے والد سے کہنے لگا با با بڑے بڑے شہزادے لوٹ گئے اگر میں بھی نا کام لوٹ گیا تو کیا ہوا یہ تو مقابلہ ہے جو بھی جیت لہے اور شاید وہ خوش نصیب میں ہو جاؤں آخر باپ کو بیٹے کی ضد ماننی پڑ گئی اعظم خوشی خوشی محل کی طرف چل پڑا۔ شہر بھر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی مقررہ وقت پر محل لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا بادشاہ تخت پر بیٹھا ہوا تھا ملکہ عالیہ بھی محل میں موجود تھی وزیر امیر درباری اور عوام الناس سب دربار میں موجود تھے آخر شہزادی نے اپنا پہلا سوال کر ڈالا۔

اس نے شہادت کی انگلی فضا میں بلند کی اعظم کچھ دیر خاموش ہوا اور پھر شہادت والی انگلی کے ساتھ والی انگلی فضا میں بلند کی یہ دیکھ کر شہزادی مسکرا اٹھی اور ملکہ عالیہ بولی شا باش اے نوجوان تم پہلا مرحلہ بڑی کا میابی سے پار کر گئے ہو۔ دوسرے سوال کے لیے شہزادی کر سی سے اٹھی اور ہاتھ میں تلوار لے کر ہوا میں چلہانے لگی کچھ دیر بعد وہ دوبارہ اپنی نشست پر آکر بیٹھ گئی بادشاہ سمیت ہر دربار کی نظر اعظم پر تھی اعظم کھڑا ہوا اور اپنی جیب سے قلم نکال کر فضا میں بلند کر دی شاباش اے نوجوان ہم خوش ہوئے یہ جواب بھی درست ہے ملکہ عالیہ کی آواز دربار میں ابھری اس کے بعد دربار مبارک ہو مبارک ہو کی آواز سے گونج اٹھا۔ دو سوالات کیا تھے آخر ان کے جوابات کیا تھے ہر شخص اس بات پر غور کر رہا تھا کہ شہزادی نے کیا پو چھا اور اعظم نے کیا جواب دیا لوگوں کے لیے یہ ایک راز تھا آخر شہزادی نے تیسرا سوال کا ڈالا وہ تیزی سے سیڑ ھیاں اتری اور تیزی سے سیڑ ھیاں چڑھ کر اپنی نشست پر بیٹھ گئی یہ سوال بڑا عجیب و غریب تھا ہر طرف خاموشی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *