رانگ کال اور زنا
ابو! آج آخر ی بار آپ سے گزارش کررہی ہوں اگرمجھے کل موبائل نہ ملا تو میں ہرگز کالج نہیں جاؤں گی ۔ میر سہیلیاں روز اپنے مہنگے موبائلوں کو اچھا ل اچھال کر میرا منہ چڑاتی ہیں۔ واجد غوری صاحب دن بھر دفتر کے گھن چکروں میں الجھنے کے بعد اب گھر کے دروازے کے اندر قدم رکھ چکے تھے۔ ان کی بیٹی ماہم ایک سانس میں یہ ساری باتیں ان کے گوش و گزار کرکے اپنے کمرے میں گھس گئی۔ غوری صاحب کی اہلیہ شبانہ غوری کچن کے دروازے پر کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔
اس نے آخر غوری صاحب کو سہارا دے کر لاؤنج کے صوفے پر بٹھا دیا اور کچن سے پانی لے کر آگئی۔ اور میاں بیوی آپس میں اپنی بیٹی کے رویے اور اس کے مطالبے پر غورکرنے لگے ۔ غوری صاحب کا ایک ہی موقف تھا کہ اس وقت ماہم کو موبائل فون رکھنے کی قطعی ضرور ت نہیں ، اسے پڑھائی پر بھرپور تو جہ دینی چاہیے۔ ایک ماں کی حیثیت سے شبانہ غوری اپنے شوہر اور اپنی بیٹی دونوں کی نفسیات سے بخوبی واقف تھی ۔ اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اپنے میاں کو کیا مشورہ دے۔میاں بیوی نے باہمی مشورے سے بیٹی کی ضد کے آگے سرتسلیم خم کر نے کا فیصلہ کیا۔ وہ رات ماہم کی زندگی کی سب سے حسین اور طویل رات تھی۔ اللہ اللہ کرکے رات گزر گئی اس دن صبح اپنی کرنیں بکھیرنے والا سورج غوری صاحب کے خاندان کےلیے ایک خطرناک پیغام لیکر آیا تھا۔کالج سے واپسی پر ماہم کو اپنا موبائل فون مل چکا تھا وہ موبائل ہاتھ میں لیے خوشی کےعالم میں قلابازیاں کھاتے ہوئے اپنے کمرے میں گھس گئی ۔ ساری رات وہ موبائل کے ساتھ کھیلتی رہی اور صبح پھر وہ کالج گئی اور پورا دن اپنا مہنگا موبائل دکھا دکھا کر سہیلیوں کا منہ چڑاتی رہی دن گزرتے گئے اور بات پرانی ہوتی گئی ۔ ایک دن وہ کالج سے واپسی پر کالج سے متصل موبائل کی دکان سے اپنے نمبر پر بیلنس لوڈ کروا رہی تھی
اسے معلو نہ ہوسکا کہ اس کے عقب میں کھڑا ایک شخص اپنے موبائل پر اس کا نمبر نوٹ کرکے وہاں سے جاچکا تھا۔ اس رات وہ معمول سے پہلے کمرے میں جاچکی تھی ماں باپ نے سمجھا کہ شاید امتحان کی تیاری چل رہی ہے مگر انہیں کیا معلو م تھا۔ کہ زندگی کا ایک ایسا امتحان سر پر آنے والا ہے جس کا نتیجہ ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اپنی کسی سہیلی کے ساتھ گفتگو میں مگن تھی ۔ باتیں کرکے وہ تھک گئی اور سونے کاارادہ کیا اور کرسی سے اٹھنے والی تھی کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ موبائل سکرین پر ایک اجنبی نمبر بلنک کر رہا تھا وہ کچھ دیر تک سوچتی رہی کہ یہ کس کا نمبر ہے ۔ کافی سوچ وبچار کے بعد اس کے ذہن نے یہ فیصلہ کیا کہ شاید کسی سہیلی کا فون ہے مس کالوں کی تعداد چار تک پہنچی چکی تھی پانچویں مرتبہ جب موبائل بجنے لگا تو اس نے کال رسیو کرکے موبائل کو کان سے لگالیا۔ ہیلو، کون ؟ مم میں کاشف، کون کاشف؟ کس کو فون کیا ہےآپ نے ؟ تھوڑی دیر کے بعد ، میں کاشف بات کر رہا ہوں کیوں فون کیا ہے اور کس سے بات کرنی ہے ؟ وہ دراصل ! آپ سے بات کرنی تھی بکواس بند کر وآئندہ اس نمبر پر کال کرنے کی کوشش کی تو مجھ سے براکوئی نہیں ہوگا۔ یہ کہتے ہوئے ماہم نے کال کاٹ دی۔
اور لیٹ گئی۔ موبائل پھر بجنے لگا پھر وہی نمبر اس نے موبائل کو کان سے لگایا اور گالیوں کی گردان سنانے کے بعد موبائل آف کردیا۔ کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا کاشف فون کرتا رہا اور ماہم اسے سنے بغیر گالیاں دیتی رہی۔ ماہم نے اپنی ماں اور باپ کے سامنے اپنی پریشانی بیان کرنے کا فیصلہ کیا اور پوری کہانی سنا ڈالی ماں نے اس کو سختی سے منع کیا کہ وہ ہرگز اس کا ذکر اپنے ابو سے ہرگز نہ کرے ۔ ورنہ اودھم مچ جائے گا۔ اور نصیحت کی کہ اس کال کو رسیو نہ کرے۔ مگر ایک کاشف نامی اجنبی شخص اس کے اعصاب پر سوار ہوچکا تھا کچھ دنوں تک ہو وہ اس کی کال نظرانداز کرتی رہی ، ایک دن کاشف سے فیصلہ کن بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسے پورا یقین تھا کہ رات گیارہ بجے کاشف کا فون آئے گا۔ رات کے گیار ہ بج کر سات منٹ پر اچانک موبائل سکرین پر کاشف کا نمبر نمودار ہوا تھا۔ ماہم کی پیشانی پر کئی شکنیں نمودار ہوگئیں ۔ غصے کی وجہ سے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ موبائل فون کان سے لگایااور گرجنے لگی، کمینے انسان آخر تم چاہتے کیا ہو؟ تھوڑی دیر کے بعد آگے سے جواب آیا ایک مرتبہ میری بات سنو اس کے بعد آپ کی مرضی اگر آپ نے کہا تو اس کے بعد میں کبھی فون نہیں کروں گا ۔ شیطان کی محنت رنگ لانے لگی تھی۔ ایک گھٹنے کے اندر کاشف نے ماہم کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا کر اسکو شیشے میں اتار دیا تھا ۔ اب جب کاشف کال کاٹنے لگا تو اس نے پوچھا ! پھر کب کال کروگے؟ اس کے بعد ملاقاتوں کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا وہ گھر سے کالج کے نام پر نکل جاتی
مگر دن بھر کاشف کے ساتھ کبھی مزار قائد تو کبھی کلفٹن کی سیر پر چلی جاتی ، وقت گزرتا گیا۔ غوری صاحب دفتر اور سماجی کاموں میں مصروف رہے ، شبانہ غوری صاحبہ گھریلو کام کاج میں مگن رہی اسی اثناء میں کالج کے سالانہ امتحانات قریب آگئے ماہم رات بھر جاگتی رہتی ۔ ماں باپ کا خیال تھا کہ وہ رات بھر امتحان کی تیاری میں مصروف رہتی ہے ۔ مگر وہ رات بھر وہ کاشف سے فون پر باتیں کرتی ور صبح غنودگی کےعالم میں کالج چلی دیتی ۔ پھر ایک رات فون پر بات کرتے ہوئے اچانک کاشف نے کہا آج رات کہیں آئس کریم کھانے کیوں نہ چلے ۔ ماہم نے انکار کردیا۔ کاشف زور کرتارہا وہ انکار کرتی رہی ، بات تلخی تک پہنچ گئی ، کاشف نے دھمکی دی کہ اگروہ آج نہ آئی تو وہ اس کے ساتھ تعلق ہمیشہ کےلیے ختم کردے گا۔ کئی مہینوں کی ملاقاتوں کی وجہ سے وہ اس کی محبت میں پاگل ہوچکی تھی بالاآخر اس نے ہار مانتے ہوئے جانے کی حامی بھر لی اور ماں باپ کو خواب غفلت میں پاکر گھر کے دروازے کی طرف چل پڑی ۔
گھر کے دروازے سے پرے کاشف ایک خوبصورت کا ر میں اس کا انتظار کررہاتھا۔ تھوڑی دیر بعد کار شہر کی ایک مرکزی سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی، ابھی وہ پوچھنے ہی والی تھی کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ کہ اچانک کار ایک حویلی نمامکان میں داخل ہوئی، ماہم کو خوف کا ایک شدید جھٹکا لگا۔ مگر بہت دیر ہوچکی تھی، کا شف کے منصو بے کے مطابق اس کے پانچ دوست پہلے سے مکان میں موجود تھے۔ یہ کار بھی ان ہی میں سے کسی کی تھی دودن بعد شہر کے مختلف اخباروں میں یہ خبر غوری صاحب کی عزت سربازار نیلام کرنے کےلیے کافی تھی۔ معروف سماجی کارکن واجد غوری کی اکلوتی بیٹی کو گزشتہ اجتماعی طور پر عصمت دری کے بد جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے مسخ شدہ لاش سپر ہائی کے قریب جھاڑیوں سے برآمد ہوئی۔ یہ کہانی ان تمام لڑکیوں کےلیے ایک سبق ہے جو رات بھر لڑکوں سے فون پر بات کرتی ہیں، کالج کے نام پر اپنے عاشقوں سے ملاقات کرتی ہیں اور ماں باپ کو دھوکا دیتی ہیں۔
Leave a Reply