تم اپنی امی سے کہو کہ مجھے وہ پسند نہیں ہے میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں

اکرم کی رات کے ای پہر اچانک آ نکھ کھلی اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی نائیلہ بستر سے غائب تھی۔ اس نے سوچا بتھ روم میں ہوگی پر باتھ روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔ وہ اس میں بھی نہیں تھی۔۔ اسے تشویش ہوئی اس نے اپنے بستر سے چھلانگ لگائی اور کمرے سے باہر کی طرف نکلا۔۔۔ اسے ایک طرف سایہ نظر آیا وہ دبے قدموں سے اس طرف بڑ ھا۔

پھر وہ اچانک وہ رکا۔۔ اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی مو با ئل پر کسی سے با ت کر رہی ہے۔ وہ تھوڑا قریب آ یا۔۔۔ تھوڑی دیر وہ وہاں رکا۔ اور پھر واپس اپنے کمرے میں آ کر اپنے بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد نہا یت آرام سے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی۔۔ اکرم نے فوراً اپنی آ نکھیں بند جیسے کہ وہ سو رہا ہوں۔ نائیلہ آ رام سے بستر پر چڑ ھی اور ایک طرف کروٹ کر کے لیٹ گئی۔ جبکہ اکرم کسی گہری سو چوں میں گم ہو گیا۔ نائیلہ نے گھر سے بھاگ کر رمیز سے شادی کا فیصلہ آخر کر ہی لیا۔ اسے صرف اپنی خوشیاں عزیز تھی۔ اسے اپنے والدین کی عزتں کی زرا بھی پرواہ نہیں تھی۔ اگر پرواہ ہوتی تو وہ یہ اتنا بڑا قدم نہ اٹھاتی۔ کسی غیر کی محبت میں لوگ آخر اپنوں کی چاہتوں کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ اپنی خوشی کی خاطر اپنوں کو دکھ کیوں دے جاتے ہیں۔ رمیز نے اسے چند ضروری چیزیں رکھنے کا کہا۔ اور رات کو تیار رہنے کا کہا۔۔ آخر وہ رات آ پہنچی۔ کار کے مخصوص ہارن پر اس نے اپنا بیگ اٹھا یا اس کے گھر والے سو رہے تھے اس نے نہا یت احتیاط سے دروازہ کھو لا۔ تو یہ لوگ جا رہے تھے تو پو لیس والوں نے پکڑ لیا ۔

تو انہیں دیکھ کر پو لیس والا کہنے لگا کہ جھوٹ مت بو لو میری ساری زندگی پو لیس میں گزر گئی ہے اور میں ایک نظر دیکھ کر ہی پہچان لیتا ہوں کون بیوی ہے کون محبوبہ ہے اس لڑ کی کا چہرہ صاف بتا رہا ہے کہ یہ تمہارے ساتھ بھاگ رہی ہے جبکہ اس کے گود میں رکھا ہوا بیگ بھی اس کی گواہی دے رہا ہے۔ اور زیادہ تر میں نے یہی دیکھا ہے کہ تم جیسی بھولی لڑکیوں کو ایسے مرد بھا گا کر لے جاتے ہیں اور پھر اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیتے ہیں ” نائیلہ کا سر شرم جھکا ہوا تھا۔ ” دیکھو بیٹی ! ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے رات کی تاریکی ابھی باقی ہے۔ چلو میں تمہارے گھر تمہیں چھوڑ آ ؤں جیسے ہی وہ دروازہ کھلا چھوڑ کر گئی تھی وہ ویسا ہی کھلا تھا۔

اس کی ماں کھڑی تھی ماں کو دیکھ کر اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس سے پہے وہ کچھ بو لتی اس کی ماں بو لی جاؤ اپنے کمرے میں اس سے پہلے کوئی جاگ جائے وہ اپنے آ نسو پو نچھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئ جبکہ رمیز کی یاد ابھی بھی اس کے دل میں تھی اور رمیز کو دو سال بعد کال کی اور کہا کہ میری شادی ہو چکی ہے اور سب گھر والے ساتھ ہیں میں تمہارے ساتھ بات نہیں کر سکتی۔ یہ کہہ کر رمیز نے فون بند کر دیا۔ آدھی رات کے وقت دوبارہ رمیز کا فون آ یا اور شکوے شکایت کر نے لگا تو وہ بو لی۔ دیکھو رمیز! یہ بات ٹھیک ہے کہ مجھے اکرم پسند نہیں تھا۔ پر اب وہ میرا شوہر ہے۔ اور ایک مشرقی بیوی اپنے شوہر کو کبھی دھو کا نہیں دے سکتی۔ اب وہ میرا سر تاج ہے اور تاج کو سر پر سجا یا جاتا ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کا شوہرسو رہا ہے مگر اس کو کیا معلوم تھا کہ اس کا شوہر ان تمام باتوں کو سن رہا ہے۔ جبکہ اکرم کو فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اس کو ایک وفا دار بیوی کا ساتھ نصیب ہوا ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *