ایک باپ کی درد بھری کہانی

میں اور میری بیوی سنار کی دو کان پر گئے سونے کی انگو ٹھی خریدنے کےبعد جیسے ہی میں باہر نکلنے کے لیے مڑا تو ایک بار عب شخص سے ملا قات ہوئی جو کہ مجھے جانتے تھے لیکن میں ان کو بھول چکا تھا بس اتنا یاد تھا کہ ماضی میں کبی انسے ملا قات ہوئی تھی۔ یہ صاحب بڑی گرم جوشی سے میرے گلے ملے اور سوالیہ نظروں سے پو چھنے لگے بیٹا لگتا ہے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں

آپ میں نے کہا معذرت کے ساتھ آپ کا چہر ہ جا نا پہچانا لگ رہا ہے لیکن یاد نہیں آ رہا کہ آپ سے کب ملا قات ہوئی تھی۔ میری بیگم گئی آنٹی کو سلام کیا آنٹی نے بہت ہی اچھے طریقے سے میری بیوی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر بہت ہی پیارے انداز میں میری بیوی کو دعائیں دیں۔ میں نے آ نٹی کو بتلا یا کہ یہ میری بیوی ہے

اور یہ میرا تین سال کا بیٹا ہے۔ آنٹی بہت خوش ہو ئیں اور اپنے بیٹے کی طرف آ نکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا جس نے میری بیٹے کی جیب میں ہزار کا نوٹ ڈال دیا۔ میں نے بہت اسرار کیا کہ یہ غلط ہے لکن آنٹی نہ ما نیں۔ آنٹی نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ مجھے میرے بیٹے کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیں اور میں نے بھی اپنی بیگم کو کہا کہ تم تھوڑا سا وقت نجھے د و بچے کو کچھ کھلاؤ پلا ؤ ۔۔ تم ایک پڑ ھے لکھے اور معاشرے میں ایک کا میاب شخص ثابت ہو سکتے ہو مجھے پہلے ہی علم تھا۔ اور مجھے مکمل یقین تھا کہ میری بیٹی کو بھی تم خوش رکھو گے۔

آنٹی کی باتین سن کر میں مزید پر یشان ہو گیا اور میں نے کہا کہ آ نٹی ہم بہن بھائی آپس میں ایک دوسرےپر جان چھڑ کتیں ہیں خوشی اور گم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم میں سے کسی کو ایک دوسرے سے کوئ شکایت ہو۔ اسی طرح پھر میں نے تمہارے والد صاحب کے کپڑوں کا جائزہ لیا تو جھے محسوس ہوا کہ تمہارے بھا ئیوں کے جسموں پرسجے ہوئے کپڑے زیادہ مہنگے ہیں اور یہی حال تمہارے والد صاحب کے جوتوں کا تھا۔۔۔ جب میں نے تمہاری ماں کے زیورات دیکھے تو انکی مقدار بہت ہی کم تھی جبکہ تمہاری دونو بھا بھیوں کے ہاتھ بازو اور گلے زیورات سے سجے ہوئے تھے۔

اسکا بھی دل کرتا ہو گا نئے جوتے اور نئے کپڑ ے پہننے کو لیکن ہو سکتا ہے اس کی جیب اس چیز کی اجازت نہ دیتی ہو لیکن تمہارے بھا ئیوں کی جیب تو اجازت دیتی تھی کہ اپنے باپ کے لیے اچھا لباس اھچا جو تا پہلے خریدتے اور اپنے لیے بعد میں کیو نکہ یہہ رویہ تمہارے باپ کا تھا۔ ابھی اولا د کی باری ہے اور مجھے فخر ہے اپنی اولاد پر کہ آ ج کچھ بھی ہو جائے میری اولاد مجھے ترجیح دیتی ہے میرے لیے پہلے خریدتی ہے بعد میں اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ خرید ا جاتا ہے اور جھے فخر ہے اپنی اولاد کی اولاد پر کہ وہ بھی اپنے والدین کو اپنی زندگیوں سے زیادہ ترجیح دیتی ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *