جب حضرت مہدی آئیں گے
دارالعلوم دیو بند کے دوسرے مہتمم گزرے ہیں، ان کا نام رفیع الدین تھا، بڑے صاحب حال اور صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے، حرم تشریف لائے اور یہاں قیام کیا، اب ذرا سوچئے کہ ان کی سوچ کہاں پہنچی، ایک دن بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ نبی علیہ السلام نے بیت اللہ کی کنجی بنو شیبہ کو عطا کی تھی، یہ ایک قبیلہ ہے جن
کے پاس پہلے سے یہ کنجی تھی،نبیؐ نے فتح مکہ کے بعد کنجی انہی کو دے دی اور فرما دیا کہیہ کنجی قیامت تک تمہارے ہی قبیلہ میں رہے گی،یہ تصدیق بھی فرما دی، چنانچہ آج بھی بیت اللہ کی کنجی ان کے پاس ہے، اگر کوئی بادشاہ بھی آتا ہے تو دروازہ کھولنے کے لیے وہی خاندان بنو شیبہ کا بندہ آتا ہے اور وہ کنجی بردار
دروازہ کھولتا ہے، تو شاہ رفیع الدینؒ کے ذہن میں خیال آیا کہ یہ خاندان بھی مکہ مکرمہ میں ہی رہے گا، چنانچہ انہوں نے بیت اللہ کی کنجی بردار کے ساتھ دوستی لگائی، واقفیت بنائی، تعارف کیا، ہدیہ تحفہ دیا، بات چیت کی حتیٰ کہ چند دنوں میں آپس میں خوب انسیت اور محبت ہو گئی، جان پہچان ہو گئی، جب جانے کا وقت
آ گیا تواداس دل کے ساتھ جب ان سے ملنے لگے تو ان کا دل بھی اداس تھا کہا کہ اچھا آپ جا رہے ہیں، کوئی کام ہمارے ذمہ ہو تو بتائیے، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ توجب انہوں نے یہ کہا تو فرمانے لگے کہ ہاں ایک کام ہے اگر آپ کر دیں تو؟ کون سا؟ وہ کام یہ ہے کہ یہ کچھ پیسے ہیں یہ تو آپ کے لیے ہدیہ ہے اور یہ ایک تلوارہے یہ امانت ہے ، کیا مطلب؟ جیسے چابی تمہارے خاندان میں چلتی رہے گی، یہ تلوار بھی امانت کے طورپر آپ
اپنے خاندان کے حوالہ کر دیں، وہ اس تلوار کو بھی محفوظ رکھیں، جب حضرت مہدی آئیں گے اور آپ کے خاندان کا جو شخص ہوگا وہ جیسے ان کے لیے دروازہ کھولے گا میری طرف سے ان کو یہ تلوار کا ہدیہ پیش کر دے گا،اللہ اکبر!دیکھو محبت انسان کی سوچ کو کہاں لے جاتی ہے، یہ فرق ہے ہم میں اوراہل اللہ میں کہ ہم آتے ہیں اور عمرہ کیا اور فارغ، اب بازار ہے اور ہم طوافین اور طوافات ہیں، صبح شام بن داؤد کا طواف ہو
رہا ہے اور جواللہ والے ہیں ان کا دل حرم میں اٹکا رہتا ہے۔ یہ ہے شوقِ تلاوت ہمارے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک بزرگ تھے، عالم تھے، وہ کہنے لگے،جب میں اپنے حضرت سے بیعت ہواتو انہوں نے مجھے ایک قرآن پاک روزانہ تلاوت کا حکم دیا، خود مجھے فرمانے لگے کہ اس وقت مجھے بیعت ہوئے پینتالیس سال کا عرصہ گزر چکا، ان تینتالیس سالوں میں ایک دن میری تلاوت قضا نہیں ہوئی اگر یہ لوگ ایسے اعمال نامہ لے
کر اللہ کے حضور پیش ہوں گے کہ تینتالیس سال میں ایک دن بھی قرآن پاک کا ایک پارہ پڑھنا اس میں ناغہ نہیں ہوا تو پھر سوچیں کہ ہم اس دن کیاکریں گے؟ کرنے والے آج کے دور میں بہت کچھ کر رہے ہیں، ہم نے تو دیکھا حفاظ کو بھی رمضانی حفاظ، بس رمضان آیا تو دن رات بھاگ دوڑ کرکے کچھ کرلیا اور اس کے بعد ان میں اورعام نوجوان میں کوئی فرق نہیں۔
Leave a Reply